برڈ فلو کا خوف ،گوشت کی قلت:گزشتہ دو ماہ کے دوران مچھلیوں کی مانگ میں 20فیصد اضافہ

برڈ فلو کا خوف ،گوشت کی قلت:گزشتہ دو ماہ کے دوران مچھلیوں کی مانگ میں 20فیصد اضافہ

شوکت ساحل کے این او

سرینگر/ کشمیر میں برڈ فلوکے خوف اور مٹن کی قلت کے بیچ آج کل لوگ مچھلیاں کھانے کو ترجیح د ے رہے ہیں۔ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ برڈ فلو کے خوف سے انہوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر مرغ کھانا چھوڑ دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ نرخوں پر حکومت اور مٹن ڈیلروں کے مابین تعطل کی وجہ سے وادی میں مٹن کی قلت ہے۔ مرغ اور مٹن کی عدم موجودگی میں آج کل لوگ مچھلیاں کھانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پلوامہ کے ایک فش ڈیلر نے بتایا کہ برڈ فلو کی خوف اور مارکیٹ میں مٹن کی قلت کے سبب مچھلیوںکی فروخت میں پچھلے دو ماہ میں20 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔

\انہوں نے کہا کہ عام طور پر موسم گرما کے مقابلے میں لوگ سردیوں میں مچھلیاں کھاتے ہیں ، تاہم ، اس سال برڈ فلو کی خوف اور مٹن کی قلت کی وجہ سے لوگ مچھلیوں کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔اننت ناگ کے ایک اور مچھلی فروش راجیش نے بتایا کہ عام طور پر وہ روزانہ تقریبا 200 کلوگرام مچھلی فروخت کرتا تھا لیکن اس سیزن میں ا نہوں نے روزانہ300 کلوگرام سے بھی زیادہ فروخت کیا ہے۔

فشریز ڈیپارٹمنٹ کے عہدیداروں نے بھی بتایا کہ برڈ فلو کے خوف اور مٹن کی قلت کی وجہ سے ان کی فروخت پچھلے ایک یا دو ماہ سے بڑھ گئی ہے۔ اطہر ریشی ، جو ماہی گیر ملازمین ایسوسی ایشن کے صدر ہیں اور جنوبی کشمیر میں دو مچھلیوں کے فارموں کے انچارج ہیں ، نے کہا کہ انہوں نے گذشتہ دو ماہ میں20فیصد سے زیادہ مچھلیاں فروخت کیں۔

یاد رہے کہ حال ہی وادی کشمیر کے ضلع کولگام ،اننت ناگ ،بڈگام ،پلوامہ اور بارہمولہ میں برڈ فلو کی اطلاعات تھیں ۔برڈ فلو کے خدشات اور خوف کے نتیجے میں مرغ کی مانگ میں کافی گراﺅٹ آ گئی ہے ۔سرینگر کے ایک فش ڈیلر اعجاز احمد کلو نے بتایا کہ مچھلیوں کی مانگ میں 50فیصد تک اضافہ ہوا ۔

ان کا کہناتھا کہ اس سے پہلے ہم ہر دن تقریباً 2ہزار کلوگرام فی دکان فروخت کرتے تھے،اور یہ سیل وقت4ہزار کلو گرام تک پہنچ گئی۔کلو فیش شاپ چین کے اونر ، اعجاز کلو نے مزید بتایا کہ برڈ فلو کے خوف اور گوشت کی قلت کے سبب مقامی اور غیر مقامی دونوں مچھلیوں کے اقسام کی مانگ میں اضافہ ہوا ۔ان کا کہناتھا کہ ہوٹل اور رستوران کی سپلائی میں بھی اضافہ ہوگیا ۔

انہوں نے کہا ’ہم وادی کے مختلف اضلاع میں مچھلی فراہم کرتے ہیں، گولڈن اور مولی اقسام کی بہت زیادہ مانگ ہے‘۔بسم اللہ فش کمپنی کے مالک شاہنواز احمد کول نے بتایا کہ اوسطا ً12 سے 14 ٹن مچھلی درآمد کی جارہی ہے۔

کول نے بتایا کہ سری نگر میں ایک کلو گرام مچھلی کی 250 روپے میں فروخت ہوتی تھی۔ان کا کہناتھا’ہم نے نرخوں کو معقول رکھا ہے۔ حال ہی میںخوراک ،شہری رسدات و امورصارفین نے مچھلیوں کی فراہمی اور اس کی شرح چیک کرنے کے لئے ہمارے ساتھ ایک میٹنگ کی‘۔پولٹری ڈیلروں کا کہنا تھا کہ لوگ زیادہ تر اس حقیقت کے باوجود مرغی کے استعمال سے گریز کررہے ہیں کہ ماہرین نے75 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ پر پکائے جانے پر ا س سے انسانی کھپت کے لئے محفوظ قرار دے دیا ہے۔ادھر جلد ہی مٹن کی شرحوں پر تعطل کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ہی سری نگر میں ذبع خانوں کے بارے میں قصابوں اور مٹن ڈیلرز کا بڑا مطالبہ طویل عرصے سے حل نہیں ہوا ہے۔

سری نگر میں اس وقت صرف ایک چھوٹا ذبح خانہ موجود ہے ، جو سری نگر کے رعناواری علاقے میں واقع ہے۔تاہم ، مٹن ڈیلرز نے کے این او کو بتایا کہ رعناواری میں ایک چھوٹا سا ذبح خانہ کافی نہیں ہے اور بہت سے مزید ذبح خانے قائم کرنے ہیں،جو حکومت کے منصوبے میں تھے، ابھی تک اس کی منظوری نہیں دی گئی ہے۔ڈپٹی میئر ، سرینگر میونسپل کارپوریشن (ایس ایم سی) ، پرویز قادری نے کے این او کو بتایا کہ جب وہ قائم مقام میئر تھے، اس وقت انہوں نے میونسپل حدود میں 10 کے قریب ذبح خانوں کے قیام کو منظوری دے دی تھی۔

بہر حال ، انہوں نے بتایا کہ چونکہ مالیات کے معاملات میئر ہی کے پاس ہیں ،لہٰذا انہوں نے دوبارہ چارج سنبھالنے کے بعد اس سلسلے میں کوئی میٹنگ طلب نہیں کی ۔خاص طور پر ، حکومت نے آلوچی باغ میں خالی جگہ پر جدید سلاٹر ہاوس(ذبح خانہ ) تعمیر کی منظوری دی تھی۔اس سلسلے میں ایک آرڈر زیر نمبر153 Of 2011بتاریخ22جون کو جاری کیا گیا ہے ۔یہ آرڈر اُس وقت کمشنر سیکریٹری ایچ اینڈ یو ڈی ڈی ،سریش کمار نے جاری کیا تھا ۔تاہم ، اس فیصلے نے تنازعہ کو جنم دیا کیونکہ علاقے کے نوجوان خالی جگہ کو کھیل کے میدان کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.