ماں ایک ہستی

انسانی نسل کے تسلسل کا جہاں تک تعلق ہے اسے آبادی کے تناسب میں اضافہ ہوتا ہے اور مختلف خاندانوں کے چشم وچراغ وجود میں آتے ہیں ۔اسطرح اس فطری عمل سے خاندان کے وارث پیدا ہوتے ہیں ۔ایک نوزائد بچے کی پیدائش کے موقعے پر خاندان اور قبیلوں میں خوشیاں اور شادمانیاں منائی جاتی ہےں کیونکہ ان خانوادوں اور پیڑھیوں کو آگے بڑھانے کیلئے وارث یہی بچے ہوتے ہیں ۔ماں بچے کو جنم دیکر جن مصائب ومشکلات کا سامنا کرتی ہے اس کی کیفیت صرف ماں ہی بیان کرسکتی ہے ۔مسلسل 9 مہینے اپنے بچے کو کوکھ میں رکھ کر یہ ماں موت وحیات کےساتھ جنگ کر کے اپنے جگر کے ٹکڑے کو وجود بخشتی ہے اسطرح اپنا خون پلا کر اس کی ہر ممکن حفاظت کرتی ہے اپنی راتوں کی نیند حرام کر کے اپنا سب کچھ اسی بچے پر قربان کرتی ہے ۔شاید اسی بناءپر قدرت نے جنت کا مقام ماں کے قدموں تلے رکھا ہےں جس شفقت محبت اور محنت سے یہ ماں بچے کو جوانی عطا کرتی ہے لیکن یہ بچہ جوان ہو کر اپنے ان والدین کو بھول جاتا ہے جب ان والدین کو اس بچے کی ضرورت ہوتی ہے ۔موجودہ زمانے کو لوگ ترقی پسند زمانہ کہتے ہیں کیونکہ صنعتی اور تعلیمی انقلاب کا زمانہ ہے ۔لہٰذا بچے ان انقلابوں میں کھو کر اپنے گھر سے دور بیرونی ممالک میں روزگار کی تلاش میں جاتے ہیں لیکن ان کے بوڑھے والدین دانہ دانہ کیلئے محتاج ہو رہے ہیں۔ماں کی آنکھوں کی بینائی چلی جاتی ہے اس بچے کو دیکھنے کیلئے ماں ترس رہی ہے جس ماں نے مہینوں تک اس کو اپنی کو کھ میں پالا ہوتا ہے ۔وادی کشمیر جس کو صوفیوں ،ولیوں ،ریشیوں اور منیوں کی سرزمین ماناجاتا تھا ۔اس وادی میں اب اپنے ملازم اور تاجر حضرات دولت کمانے کی خاطر بیرون ریاست اور بیرون ملک جاتے ہیں اور اپنے والدین کو مزدوروں کے حوالے کرتے ہیں۔یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہےں کہ چند لوگ اپنے والدین کو سردیوں میںمختلف اسپتالوں میں ڈاکٹروں سے اثر ورسوخ استعمال کر کے بھرتی کرواتے ہیں اور اسطرح ان کی اچھی دیکھ بال بھی ہوتی ہے اور ان کو سردی سے بچنے کا زریعہ بھی مل جاتا ہے ۔اکثر عورتیں جو بڑھا پے میں اپنی زندگی گذار تی ہیں ،بیوہ ہو چکی ہے،وہ سڑکوں پر بھیک مانگنے کیلئے مجبور ہو رہی ہیں لیکن ان کے بچے خود بیرون ممالک یا بیرون ریاست عیش وعشرت کرتے ہیں لیکن اس ماں کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے جس سے اپنی جوانی اس بچے کی خاطر صرف کی ہوتی ہے۔اب سرکاری سطح پر بھی اس تباہی کو عروج مل رہا ہے ۔اکثر علاقوں میں اولڈ ایج ہوم بنائے جاتے ہیں ۔ان کی تعمیر کیلئے کروڑوں روپے صرف کئے جاتے ہیں ۔اگرچہ اس تباہی کا عنصر اب تک یورپی ممالک میں ہی موجود تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ تباہی مشرق میں بھی پھیل رہی ہے ۔یہاں حکمران سالانہ یوم والدین مناتے ہیں لیکن دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کو عروج دینے کی غرض سے نئے منصوبے عمل میں لارہے ہیں ۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود کیلئے دولت کمانا لازمی ہے لیکن جس دولت کی وجہ سے ایک انسان اپنے والدین سے اس وقت دوری اختیار کر یگا جب ان والدین کو اپنے جوان بیٹے کی بے حد ضرورت ہوتی ہے تو اس دولت کمانے سے بہتر ہے کہ انسان ایک درمیانہ رویہ کی زندگی گذارے اور اپنے والدین خاصکر ماں کے قدموں تلے جنت حاصل کر سکے جس کا بیان خود قدرت نے کیا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.