طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاہدہ

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاہدہ

بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت: ‘لگتا ہے فریقین نے لچک کا مظاہرہ کیا’

افغانستان میں جاری 19 سالہ طویل جنگ کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ فریقین کسی معاہدے پر تحریری شکل میں متفق ہوئے ہیں۔

بارہ ستمبر کو پہلی مرتبہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور افغان حکومتی نمائندوں کے درمیان باضابطہ رابطہ ہوا تھا جس میں ٹیکنیکل کمیٹیوں کی تشکیل پر اتفاق ہوا تھا۔

تقریباً تین ماہ کے مذاکرات کے بعد بدھ کو فریقین آئندہ ہونے والے مذاکرات کے طریقۂ کار پر راضی ہوئے ہیں جس میں وہ بین الافغان امن مذاکرات کے لیے ایجنڈا ترتیب دیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ پیش رفت فریقین کی جانب سے لچک کا مظاہرہ دکھانے کے بعد ہی سامنے آئی ہے۔

‘قیامِ امن کے لیے جنگ بندی ضروری ہے’

افغانستان کے قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ترجمان فریدون خوزون نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس پیش رفت کو خوش آمدید کہتے ہیں اور یہ پیش رفت افغان عوام کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ فریقین جلد بین الافغان امن مذاکرات میں کسی نتیجے پر پہنچ کر افغانستان کی سر زمین سے جنگ کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

افغان امن بات چیت میں اہم پیش رفت، مذاکرات کا طریقۂ کار طے پا گیا

اُن کے مطابق جوں جوں مذاکرات آگے بڑھتے ہیں افغان عوام کی توقعات میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے اور وہ ان تمام دوست ممالک کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس پیش رفت میں افغانستان کی مدد کی۔

فریدون خوزون کہتے ہیں فریقین بین الافغان امن مذاکرات کے لیے ترتیب دینے والے ایجنڈے میں مکمل آزاد ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں قیامِ امن کے حصول کے لیے جنگ بندی بہت ضروری ہے۔

دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے حالیہ پیش رفت سے متعلق اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امن مذاکرات میں شامل ٹیموں کی موجودہ بات چیت سے پتا چلتا ہے کہ پائیدار امن کے حصول کے لیے افغانوں میں باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے اور فریقین افغانستان میں پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صادق صدیقی ایک ٹوئٹ میں افغان صدر کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ معاہدہ افغان عوام کے کلیدی مطالبے کے طور پر جامع جنگ بندی سمیت اہم امور پر بات چیت شروع کرنے کی سمت ایک اہم قدم ہے۔

امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بھی فریقین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ تشدد میں کمی اور جنگ بندی کے حصول کے سلسلے میں طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ کام جاری رکھے گا۔

یاد رہے کہ افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان نے یہ معاہدہ ایسے وقت میں کیا ہے جب افغانستان میں تشدد کی لہر میں اضافہ ہو گیا ہے اور فریقین اس کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دیتے ہیں۔

امریکیوں کی اکثریت افغان امن مذاکرات کی حامی

رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد 10 مارچ کو بین الافغان امن مذاکرات شروع ہونا تھے۔ تاہم چھ ہزار سے زائد قیدیوں کی رہائی کی وجہ سے یہ مذاکرات تقریباً چھ ماہ تک تعطل کا شکار ہوئے اور حالیہ پیش رفت اسی معاہدے کا تسلسل ہے۔

گزشتہ ماہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے دورۂ کابل میں افغان صدر کو امن کے حصول کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی تھی۔

افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کی مندوب دیبوراہ لیونس نے اپنے ایک ٹوئٹ میں حالیہ پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ "یہ کامیابی تمام افغانوں کو مطلوبہ امن تک پہنچنے کے لیے ایک بہار کی حیثیت رکھتی ہے۔”

بین الافغان امن مذاکرات میں ایک بڑی پیش رفت پر اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ سے وابستہ پشاور میں مقیم صحافی حق نواز خان کہتے ہیں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فریقین نے کافی حد تک لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انپوں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ طالبان اور افغان حکومت نے بتایا تھا کہ بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے کُل 21 نکات زیرِ بحث ہیں جس میں سے 19 پر اتفاق ہو چکا ہے اور دو پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

بشکریہ:وی او اے

Leave a Reply

Your email address will not be published.