اسیران کے اہلخانہ کا الزام ،سرینگر میں احتجاج ،درج کیس واپس لینے کی مانگ
شوکت ساحل
سرینگر: سینٹرل جیل سرینگر میں مقید اسیران کے اہلخانہ نے سرینگر میں منگل کو احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سینٹرل جیل میں حالیہ دنوں پیش آئے واقعہ پر قیدیوں کے خلاف درج کیا گیا مقدمہ واپس لیا جائے ۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سینٹرل جیل سرینگر میںپابند سلاسل اُنکے عزیز واقارب محفوظ نہیں ہیں جبکہ اُنہیں ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ہے ،جسکی وجہ سے وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلاءہیں ۔
ادھر سابق خاتون وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر ،محبوبہ مفتی نے اِس احتجاج پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند کشمیر کو ’اوپن ائر جیل اور گوا نتا ناموبے جیل ‘تبدیل کرنا چاہتی ہے ۔
سینٹرل جیل سرینگر میں مقید اسیران کے اہلخانہ اپنے عزیز واقارب کی سلامتی کو لیکر متفکر ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ سینٹر ل جیل میں پیش آئے حالیہ واقعہ کے بعد اُنہیں اپنے پابند سلاسل عزیز واقارب کے ساتھ ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔
سینٹرل جیل سرینگر میں مقید اسیران کے اہلخانہ اور قریبی رشتہ داروں نے منگل کے روز مشتاق پریس انکلیو سرینگر میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھر نا دیا ۔مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ،جن پر ’مظلوم قیدیوں پر ظلم منظور نہیں©‘منظور نہیں ،اسیران محفوظ نہیں ،سینٹرل جیل کو گو انتا ناموبے نہ بناﺅ ‘کشمیری اسیران کو بیرون ریاست منتقل نہ کرو،‘کے جیسے نعر ے درج تھے ۔
مظاہرین میں قیدیوں کے اہلخانہ جن میں خواتین ،بزدگ اور بچے شامل تھے ،پریس انکلیو میں منگلوار کو جمع ہوئے ،جہاں انہوں نے اپنے مطالبات کو لیکر احتجاجی دھرنا دیا ۔مظاہرین میں شامل ایک خاتون نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ 5اپریل کو سینٹرل جیل سرینگر میں پیش آئے واقعے کی خبر جونہی اُن تک پہنچی ،تو وہ سینٹرل جیل سرینگر ،اپنے عزیز واقارب سے ملنے کےلئے گئے ،لیکن جیل حکام نے یہ کہہ کر ملاقات کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے عزیز واقارب سے سوموار کو مل سکتے ہیں جبکہ سوموار کو یہ کہہ ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ (اسیران ) آپ سے نہیں ملنا چاہتے ہیں ۔
ان کا کہناتھا کہ سینٹرل جیل میں پیش آئے واقعے کے بعد یہاں مقید اسیران کے خلاف ایک ایف آئی آر بھی درج کی گئی ،جسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہئے ۔انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ متعلقہ ایس پی جیل خانہ جات کو بھی تبدیل کیا جانا چاہئے ۔
اسیران کے اہلخانہ اور قریبی رشتہ داروں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ کشمیری اسیران کو جموں یا بیرون ریاست جیلوں میں منتقل نہ کیا جائے ۔ان کا کہناتھا ’ ہم انتہائی غریب مزدور ہیں اور ہم اپنے مقید عزیز واقارب سے جموں یا بیرون ریاست رُخ نہیں کرسکتے ہیں ،کیونکہ ہمارے پاس اتنے وسائل موجود نہیں ہیں ‘۔
انہوں نے انتظامیہ اور حکام سے اپیل کہ سینٹرل جیل سرینگر میں مقید اسیران کو جموں یا بیرون ریاست جیلوں میں منتقل نہ کیا جائے ۔یاد رہے کہ 4اور5اپریل کو سینٹرل جیل سرینگر میں مقید اسیران اور جیل اسٹاف کے درمیان کسی بات کو لیکر پُر تشدد مظاہرے بھڑک اٹھے تھے ۔
ڈائریکٹر جنرل پولیس دلباغ سنگھ، جو ڈائریکٹر جنرل جیل خانہ جات بھی ہیں، نے بتایا تھا کہ کچھ قیدیوں نے جیل کی ایک بارک میں مرمت کا کام روکنے کیلئے دوسروں کو بھڑکایا۔انہوں نے کہاتھا’ قیدیوں نے مل کر جیل سٹاف کے ساتھ تشدد کیا۔انہوں نے وہاں آگ بھی لگائی ‘
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ یہ تشدد جیل کے اندرتب بھڑک اُٹھا جب بعض قیدیوں کو کشمیر سے باہر منتقل کرنے کی افواہ اڑ گئی۔قیدیوں نے ایک عارضی قیام گاہ کو آگ لگاکر جیل کے اس دروازے تک آنے کی کوشش کی جو پرانے شہر کی طرف کھلتا ہے۔
واقعہ کے فوراً بعد حالات کو قابو میں کرنے کےلئے پولیس حکام اور سی آر پی ایف کی اضافی کمپنیاں طلب کی گئی تھیں جبکہ 5اپریل کو شہر خاص میں لوگوں کی آزاد نقل وحرکت پر پابندی وبندشیں عائد کی گئی تھیں اور مرکزی جامع مسجد سرینگر کو سیل کرکے نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی تھی۔
سابق خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا ردِ عمل
ادھر سابق خاتون وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر ،محبوبہ مفتی نے اِس احتجاج پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند کشمیر کو ’اوپن ائر جیل اور گوا نتا ناموبے جیل ‘تبدیل کرنا چاہتی ہے ۔
سماجی رابط ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹوئیٹ کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا ’قیدی بھی بنیادی انسانی حقوق کے حقدار ہیں اور احتجاجی مظاہروں کو روکنے کےلئے فورسز کا بے تحاشا استعمال اسکی واضح خلاف ورزی ہے ،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قیدیوں نے مبینہ طور قران پاک کی بے حرمتی کے بعد احتجاج کیا تھا ،حکومت ہند کشمیر کو اوپن ائر جیل اور جیلوں کو گوانتا نا مو بے میں تبدیل کرنا چاہتی ہے ‘۔
گوانتا نا مو بے جیل کی تاریخ
گوانتا نا مو بے امریکہ کی ایک متنازعہ جیل ہے ،جو پوری دنیا میں مشہور ہے ۔ یہ جیل سنہ2002 میں بش انتظامیہ کی جانب سے قائم کی گئی تھی اور اس کا مقصد حراست میں لیے مشتبہ افراد سے تفتیش اور جنگی جرائم کی مقدمہ بازی تھا۔تاہم یہ جیل قیدیوں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک روا رکھنے اور تفتیش کے طریقہ کار کی وجہ سے تنارعات کا شکار رہی ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ2015میں وائٹ ہائوس کے ترجمان نے کہا تھاکہ امریکی فوج کی متنازع گونتانامو بے جیل کو بند کرنے منصوبہ ’آخری مراحل‘ میں ہے۔واشنگٹن میں ترجمان وائٹ ہاوس جوش ارنیسٹ نے بتایاتھا کہ یہ فیصلہ قومی سلامتی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اُس وقت کے امریکی صدر براک اوباما نے اس جیل کو بند کرنے کا اعلان سنہ2008 کے انتخابات کے بعد کیا تھا۔گونتانامو بے کے قیدیوں کو اس سال کے آغاز میں دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام شروع کیا گیا تھا اور اس وقت اس میں 122 قیدی ہیں۔سنہ2003 میں یہاں رکھے جانے والے قیدیوں کی تعداد684 تھی۔
سنہ2009 میں اوباما نے صدر کاعہدہ سنبھالتے ہی اس جیل کو اس سال کے اندر بند کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم اِن قیدیوں کو امریکہ کے اندر جیلوں میں منتقل کرنے کی اوباما کی کوششوں کی کانگریس میں دونوں پارٹیوں نے شدید مخالفت کی۔
ریاست کی سابق خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنا ردِ عمل سرینگر میں سینٹرل جیل میں مقید اسیران کے احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہونے کے بعد ظاہر کیا ۔ادھر اطلاعات کے مطابق سینٹرل جیل سرینگر میں مقید اسیران نے غیر معینہ عرصے کےلئے احتجاجی بھوک ہڑتال شروع کی ہے ۔
قید یوں نے اپنے مطالبات کو لیکر یہ بھوک ہڑتال شروع کی ہے ۔ان کا مطالبہ ہے کہ 5اپریل کو پیش آئے واقعہ پر اُنکے خلاف عائد کی گئی ایف آئی آر کو واپس لیا جائے ۔اطلاعات کے مطابق قیدیوں نے یہ بھوک ہڑتال منگل کی صبح8بجکر15منٹ پر شروع کی ۔ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اُنہیں (اسیران کو) دوسری جیلوں میں منتقل نہ کیا جائے ۔