اسلامی تحریکیں اسلامی نشاة ثانیہ کی ترجمان ہوتی ہیں یہ تحریکیں برپا ہی اس لیے کی جاتی ہیں کہ اُمت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا وقار واپس دلایا جاسکے تاکہ اس کی عظمت رفتہ بحال ہو۔ تحریکات اسلامیہ کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے زمانے کی نبض شناس ہوتی ہیں ۔ زمانے کے اتار چڑھاو اور رنگ ڈھنگ کو پہچاننے کی ماہرانہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے وابستگان اسی انداز کو اپناتے ہوئے تحریکی تقاضوں کو خوب سمجھ کر پورے شعور اور آگہی کے ساتھ آمادہ سفر ہوجاتے ہیں۔ وہ نہ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں اور نہ ہی ہر نئی چیز کے دلدادہ…. بلکہ وہ متحرک اور اجتہادی قوتوں سے متصف ہوتے ہیں اور اسی بنا پر وہ ہر حال میں تحریکی مزاج کے حامل ہوتے ہیں اور اس پاکیزہ مشن کے لیے جیتے اور مرتے ہیں۔
چونکہ اسلامی تحریکیں مسلکوں اور فرقوں سے دور رہ کر غلبہ دین کی جدوجہد کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں اسی لیے ان کا اندازہ ¿ تربیت بھی منفرد اور ممتاز ہوا کرتا ہے۔ یہاں تربیت و تزکیہ کے لیے نہ خانقاہیں سجائی جاتی ہیں اور نہ ہی عزلت کے گوشوں میں بیٹھ کر جوگیانہ خول چڑھایا جاتا ہے بلکہ یہاں عملی زندگی میں اترنے کی ہمت پیدا کرنے کی صلاحیت اُجاگر کرکے دیانت، امانت، راستبازی اور حدود اللہ کی پابندی کرنے اور کرانے کا سبق باور کرایا جاتا ہے۔ہر شعبہ زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگنے اور ان میں اسلامی روح پیدا کرنے کا کام اسلامی تحریکیں ہی انجام دینے کی اہل ہوتی ہیں۔ تحریکی وابستگان اسی فکر کی پختگی اور اسی جذبے کی تازگی لے کر اور اس کام کی نرالی نوعیت سمجھ کر آگے بڑھنے کی سعی کرتے ہیں۔یہی مزاج تحریکی کہلاتا ہے۔
اسی مزاج کے حاملین تحریک کو نیا ولولہ اور نیا عزم بخشتے ہیں۔ اس تحریکی مزاج کو پیدا کرنے کے لیے اور اِسے قائم و دائم رکھنے کے لیے قرآن و حدیث اور تحریکی لٹریچر کا مطالعہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مطالعہ نہ ہوتو فکر ماند پڑجاتی ہے اور جذبے بجھ جاتے ہیں۔ رفتار تحریک مدھم پڑجاتی ہے۔ عزم و جزم کے سُوتے خشک ہوجاتے ہیں اور یوں تحریکیں زوال کی نذر ہوجاتی ہیں۔ برصغیر میں جماعت اسلامی کے تابناک ماضی کو دیکھا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ یہ تحریک اپنی مضبوط علمی بنیادوں پر ہی آگے بڑھی ہے اور ہر طبقہ فکرسے تعلق رکھنے والوں میں سے کام کے آدمی چھانٹ کر انہیں ایک سرگرم کارکن بناتی چلی آئی ہے۔ علمی بنیادوں پرہی اس تحریک نے سارے چلینجز کا مقابلہ کیا ہے۔ بات سیکولرازم کی ہو یا سوشل ازم کے فاسد نظریہ کی، متحدہ قومیت کا غیر اسلامی تصور ہو یا فتنہ قادیانیت، فتنہ انکارِ حدیث ہو یا مسخ شدہ مذہبیت کا دینِ گوسفند، ان سارے فتنوں کا مقابلہ مولانا مودودیؒ کے وسیع و عمیق اور دلائل سے پُر لٹریچر ہی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اس سارے نئے او رپرانے علمی ورثے کو نظر انداز کرکے مستقبل کی طرف پیش قدمی دور کی بات، ہم اپنے اہداف کا تقرر و تعین بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ جماعت اسلامی جس تبدیلی کی داعی تحریک ہے اُس انقلاب کو ترجیحی بنیادوں پر آگے لے جانے کا بیڑا صرف وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جنہیں اس کے علمی تقاضے اپیل کرتے ہوں ، جو گہری علمی بصیرت اور اس سے پیدا ہونے والی حکمت عملیوں سے لیس ہوں۔
اس کام کی ترجیحات یہی ہیں کہ پہلے اصولوں سے چمٹا جائے ، مظاہر سے پہلے باطن کی اصلاح ہو اور قالب سے پہلے قلب کا تزکیہ ہو۔ یہی وہ ترتیب ہے جس سے یہ کام آسان سے آسان تر ہونے لگتا ہے۔ ذرا سیّد مودودیؒ کے ان سنہرے اور آب زر سے لکھے جانے کے قابل الفاظ کو پڑھئے اور سوچئے کہ یہاں کیا مطلوب ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ’کہ اسلام کو تانبے کے ان سکوں کا خزانہ مطلوب نہیں جن پر اشرفی کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہو۔ وہ سکہ کے نقوش دیکھنے سے پہلے یہ دریافت کرتا ہے کہ ان نقوش کے نیچے خالص سونے کا جوہر بھی ہے یا نہیں۔‘ ایسا ایک سکہ جعلی اشرفیوں کے ڈھیرسے اس کے نزدیک زیادہ قیمتی ہے۔ یہی وہ طریقہ تربیت ہے جس کے نتیجے میں ایک صالح فرد اور صالح جماعت کی تکمیل ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہو تو تحریکی ترجیحات بدل جاتی ہیں اور سارا زور جزئیات پر ہی صرف کیا جاتا ہے۔ پھر وہی وضع قطع مطمح نظر بن جاتا ہے جس سے تحریکیں منجمد ہوکر رہ جاتی ہیں۔ پُر جوش اور دھواں دار تقاریر کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کیا ہم آج اس قابل ہیں کہ موجودہ دور میں اُن نت نئے فلسفوں اور نظریوں کا علمی طور مقابلہ کرسکیں جو تحریک اسلامی کو درپیش ہیں۔
دورِ حاضر میں تحریک اسلامی کو کفر و الحاد سے زیادہ اُن خطروں کا سامنا ہے جو اسلام کو بحیثیت نظامِ زندگی پیش کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ کیا ہمیں اس چیز کا ادراک ہے کہ یہ نئے فتنے کتنے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور ان کا اثر و نفوذ کہاں تک ہوسکتا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ہم اپنے تحریکی علمی اثاثے سے جڑے بغیر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ تحریک اسلامی کے مقدس مشن کو نئی نسل تک محفوظ طریقے سے منتقل کریں تو اس کے لیے ہمیں گہری علمی بصیرت درکار ہوگی۔ یہی چیز ہمیں اس قابل بنا سکتی ہے کہ ہم تحریک اسلامی میں تازہ خون دوڑاسکیں گے۔ اپنے اندر خود اعتمادی اور خود شناسی پیدا کرنے کے لیے صرف یہی ایک طریقہ کارگر ہوسکتا ہے اور یہی چیز ہمیں دوسروں کا دست نگر بننے سے بچا سکے گی۔ موجودہ عالمی منظر نامے کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے آپ کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے کہ مستقبل قریب میں تحریک اسلامی کس طرح ایک متبادل کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ اپنی داخلی صفوں میں استحکام پیدا کرنے کے لیے ہمیں بہرحال تحریکی تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے دعوتی کام میں پروفیشنل ازم ، منصوبہ بندی میں ترجیحات کا تعین، اور اپنی اندرونی صفوں میں اسلامی روح پیدا کرنے کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تحریکی تقاضوں اوراِ سکی بنیادوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا تاکہ ہمارے کام میں مزید نکھار آسکے۔ اسلامی تحریکوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا یہ کہنا کہاں تک حق بجانب ہے کہ تحریکوں کی عمر ۵۰ سے ۴۰ سال ہوتی ہے۔ اس کے بعد تحریکیں یا تو زمانے کی نذر ہوجاتی ہیں یا اُن کی ترجیحات ایسی بدل جاتی ہیں کہ اُن کی مثال ”زبانِ یارمن ترکی ومن ترکی نمی دانم“کے مصداق ہوجاتی ہے۔ مگر یہ بات عیاں ہے کہ جو تحریکیں اپنے ماضی اور حال کا احتساب اور جائزہ نہیں لیتی ہیں وہ بہرحال معدوم ہوجاتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سوچیں کہ سات دہائیوں کی تگ و دو کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اور مستقبل میں پیش قدمی کرنے کے لیے اور زمانے پر اثر انداز ہونے کے لیے ہمیں کون ساطریقہ کار اختیار کرنا ہوگا؟یہ بات تبھی ممکن العمل ہے جب ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے آپ کو مرعوبیت سے نکال کر اپنے علمی ورثے کو تھام لیں گے ۔ یہ بات عمل میں آتی ہے تو ہم دیکھیں گے کہ زمانہ اپنی روح کی تشنہ لبی لے کر اس پاکیزہ مشن کی آبیاری کے لیے ہمارے قدم سے قدم ملاکر ہمارا ساتھ دے گا۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
٭٭٭٭٭