تحریکی کارکنان کتاب سے دور کیوں؟

تحریکی کارکنان کتاب سے دور کیوں؟

٭ایس احمد پیرزادہ

عشرہ مبشرہ میں شامل صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زبیر بن العوام ؓ نے بچپن میں اپنے بیٹے عُروہ ؒبن زبیرسے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ علم حاصل نہیں کرتے، اگر آج کے لوگوں میں تم چھوٹے ہو، توکل کے لوگوں میں تم بڑے ہوں گے اور کسی بزرگ آدمی کے لیے جاہل ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔“عروہ بن زبیرؒ نے اپنے والد صاحب کا یہ خطاب گرہ میں باندھ لیا اور پھر اپنے زمانے میں مدینہ منورہ کے فقہائِ سبعہ میں شامل ہوئے۔ حضرت زبیر بن العوامؓ نے بظاہر یہ خطاب اپنے بیٹے کے دل میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے کیا تھا، البتہ اس مختصر سے خطاب میں روز قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے سبق موجود ہے۔ دیگر علوم اور تحریکی حلقوں سے باہر با ت نہ کرنے کے بجائے ہم اپنی ہی صفوں کا اگر جائزہ لیں تو تحریک اسلامی کی صفوں میں شامل جو نوجوان نسل داخل ہورہی ہے اُن میں مطالعے کا شوق دن بدن ختم ہوتا جارہا ہے۔ تحریک اسلامی جو کسی زمانے میں پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت مانی جاتی تھی ، اب بھی اس کی صفوں میں جو نوجوان نسل داخل ہورہی ہے اُن کے پاس دنیاوی علوم کی بڑی بڑی ڈگریاں ہوتی ہیں اور عصری علوم میں وہ کافی مہارت رکھنے والے ہوتے ہیں البتہ یہ تشویش ناک بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ نوجوانوں پر مشتمل یہ نئی پود دینی علوم حاصل کرنے اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے میں سرد مہری کاہی مظاہرہ کرتی ہے۔پہلے زمانے میں تحریک اسلامی سے وابستہ ہر فرد اپنی زندگی کے گزارے ہوئے دنوں کا احتساب کرتا تھا کہ اس بیتے وقت میں اُنہوں نے کن کن تفاسیر سے استفادہ کیا، کون کون سے احادیث کو پڑھا، لٹریچر میں کس کتاب کو کتنی مدت میں مکمل کیا؟ لیکن آج تحریکی صفوں میں موجود جتنے بھی نئے داعیانِ دین سے مطالعہ کے بابت استفسار کرتے ہیں تو اکثر و بیشتر کا جواب معذرت خواہانہ ہی ہوتا ہے۔

تحریک کی صفوں میں بزرگوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، جن کی علمی استعداد کی آڑ میں نوجوان نسل بھی اپنی کمزوریوں کو چھپا لیتی ہے، اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر اس تحریک اور اِس میں شامل نونہالوں پر قائم و دائم رکھے …. البتہ دنیا کی حقیقت ہی یہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بزرگ اپنی زندگی کے اُس پڑاوپر قدم رکھیں گے جہاں اُن کے لیے عوامی مجلسوں اور اجتماعات میں آنا جانا ممکن نہیں رہے گا۔نئی نسل کو اُن کی جگہ پر آکر ذمے داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھانا ہے۔ آنے والے وقت کے لیے اگر آج کی نوجوان نسل تیاری نہیں کرے گی تو پھر لازمی طور پرمستقبل میں جب وہ تحریکی ذمہ داروں کی حیثیت سے سامنے آئیں گے اُنہیں اپنی کم علمی کی وجہ سے ہر جگہ شرمندگی کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ جماعت اسلامی کے سالانہ میقات میں وابستگان جماعت کے لیے باضابطہ ایک نصاب ہوتا ہے، اُس میں عام ارکان و رفقاءکے لیے کم از کم اس حد تک نصاب مرتب کیا جاتاہے جو اُنہیں دین کے بنیادی مسائل، احکامات اور نئے دور کے تقاضوں سے کم ازکم ہم آہنگ کرے گا۔ المیہ یہ ہے کہ اکثر ارکان و امیدوارانِ رکنیت نصاب کا مطالعہ ہی نہیں کرتے ہیں۔ اخبار ”مومن“ کے صفحات میں شائع ہونے والے مواد کا انتخاب بھی عام ارکان اور کارکنان کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے تاکہ اُنہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو، اُن کی دینی معلومات میں اضافہ ہوجائے، اُن کی فکرمضبوط ہو، اُنہیں دور جدید کے مختلف چلینجز کی جانکاری فراہم ہو، اُنہیں عالمی سیاست کے اُتار چڑھاو اور اُمت مسلمہ کے حالات کی مکمل معلومات فراہم ہوں ، اُنہیں مقامی سطح پر ہورہی سیاسی، سماجی تبدیلیوں کا جاندار تجزیہ کرنا آئے، یہ سب چیزیں مدنظر رکھتے ہوئے ”ہفت روزہ مومن“ کے مضامین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ جماعتی کیڈر میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کی دانشورانہ سوچ ہے، جن کی علمی استعداد کافی بلند ہے، جو عالمی حالات کی گہرائیوں کو جاننا چاہتے ہیں، جو عالمی معیار کے لکھاریوں کی تحریریں پڑھنا پسند کرتے ہیں، اگر چہ اخبار میں اُن کے ذوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے لیکن زیادہ تر توجہ اخبار”مومن“ کے عام قاری پر مرکوز رہتی ہے۔حالانکہ اس کے لیے بعض اوقات ہمیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ارکان وامیدوارانِ جماعت میں سے ایسے بھی لوگ ہیں جو مومن کا مطالعہ یا تو سرے سے کرتے ہی نہیںہیں یا پھر سطحی طور چنیدہ چنیدہ مضامین کو پڑھ کراپنی ”ڈیوٹی“ پوری کرلیتے ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ کچھ ارکان ایسے بھی ہیں جو ”مومن“ کے خریدار بھی نہیں ہیں، اگر کچھ اور اُن کے مطالعے میں ہوتا تواخبار” مومن“ کا مطالعہ نہ کرنے کے اُن کے عذر کو تسلیم کیا جاسکتا تھا ،لیکن یہ حضرات سرے سے ہی کسی بھی کتاب کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں۔اس تشویشناک کمزوری کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سراسر ایک علمی دعوت ہے، آپ پر وحی کا آغاز بھی”اقرا “ سے ہوا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک ایک علمی تحریک ہے۔ اسلامی دعوت و تحریک کا دارومدار علم حاصل کرنے اور پڑھنے پڑھانے پر ہے۔سورہ البقرہ میں فرمایا گیا” شاید کہ تم غور و فکر کرو“ اور آل عمران میں اللہ تعالیٰ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتے ہیں: ”تم زمین پر چلو اور پھرو اور اپنی آنکھوں سے دیکھو، مشاہدہ کرو، علم حاصل کرلو۔“تحریک اسلامی سے جو بھی لوگ وابستہ ہوجاتے ہیں وہ داعیان دین کہلاتے ہیں اور داعیان دین کا بغیر علم کے ہونا ایسا ہی ہے جیسابغیر ہتھیار کے کوئی جنگ لڑنے نکلا ہو۔

نئی نسل کا بیشتر وقت انٹر نیٹ اور موبائل فون کی نذر ہوجاتا ہے۔ نوجوان نسل کو کتاب کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنے کے لیے Time Management کرنی چاہیے۔وقت کے استعمال کے لیے ہمارے اسلاف کس قدر حساس ہوتے تھے تاریخ اسلامی کے گم گشتہ اوراق میں صر ف ایک مثال سے ہی ہم سمجھ سکتے ہیں۔شمس الائمہ سرخسیؓ بہت بڑے عالم گزرے تھے۔ اپنے زمانے کی حکومت وقت نے اُن کی حق گوئی پر اُنہیں عذاب و عتاب کا شکار بنایا۔اُنہیں گہرے کنویں کے اندر قید کردیا گیا۔ اُنہوں نے اُس تاریک کنویں میں بھی اپنے وقت کو ضائع ہونے نہیں دیا۔ اپنے شاگردوں کو وہیں طلب کرلیا۔ اُن کے شاگر د روزانہ آتے تھے او رکنویں کی منڈھیر پر بیٹھ جاتے تھے۔ شمس الائمہ سرخسی ؒنیچے سے املاءکرواتے تھے اور اُن کے شاگرد لکھتے چلے جاتے تھے۔ اُن کی املاءکی ہوئی یہی کتاب بعد میں دنیا کے سامنے  ۳۰جلدوں پر مشتمل ایک علمی ذخیرے کی صورت میں سامنے آئی۔ایک منظم تحریک کے ساتھ وابستہ ہونے کے باوجود ہمارا کتنا وقت ضائع ہوجاتا ہے اس کا ہم سب بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

مطالعے کا ذوق ختم ہوجانے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ لوگ ہماری تقاریر اور خطابات سے اُکتا جاتے ہیں۔ بار بار ایک ہی خطاب کو دوہرانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہماری انفارمیشن کے جو ذرائع ہیںاُن سے ہم نے استفادہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں:” میں بڑے بڑے علماءکی خدمت میں حاضری دیتا رہاہوں یہاں تک کہ میں نے اندازہ کرلیا کہ ان کے پاس جتنا علم تھا میں نے حاصل کرلیا۔ میں حضرت عمرو بن زبیرؓ کی خدمت میں بھی ایک عرصہ تک رہا ، یہاں تک کہ میں نے ان کی باتوں میں تکرار محسوس کی جس سے میں نے سمجھ لیا کہ میں نے ان سے سب کچھ ایک دفعہ سیکھ لیا ہے۔لیکن عبداللہ بن عبداللہ کا معاملہ میں نے دوسرے اہل علم سے مختلف پایاکہ میں جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا کوئی نئی بات ہی سیکھ کر آیا۔“مطالعے اور تحقیق کا جب تحریکی حلقوں میں ذوق ختم ہوجائے گا تو فن خطابت میں ماہر حضرات بھی بار بار ایک ہی تقریر مختلف انداز سے دوہرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوتا کہ سامعین اُن کی تقریروں اور خطابات سے بوریت محسوس کرتے ہیں۔ تحریکی حلقوں باالخصوص خطیبوں کی تحریکی زندگی ہی مطالعہ میں ہے، اُنہیں کتابوں سے گہرا لگاو ہونا چاہیے۔ کم از کم اُن کی یہ کوشش رہنی چاہیے کہ ہر خطاب میں وہ کوئی مختلف آیت،مختلف حدیث، نئی بات یا نئی انفارمیشن ضرور شامل کریں۔ اس طرح اُن کے علم میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور سامعین کو بھی زیادہ سے زیادہ دین سیکھنے کو ملے گا۔

تحریک سے وابستہ افراد کو دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے کم از کم ہر روز ایک گھنٹہ نکال لینا چاہیے، جس میں وہ پوری یکسوئی کے ساتھ قرآن و حدیث کے علاوہ دوسرے لٹریچر اور اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرسکیں۔کتابوں سے دوری کا مطلب یہ ہوگا کہ آنے والے زمانے میں ہمارے دماغ سوچ و فکر سے خالی ہوں گے۔ نام جماعت اسلامی کا ہوگا لیکن جماعتی فکر کی جگہ کسی اور ہی چیز نے ہماری ذہنوں میں گھر کر لیا ہوگا۔ تحریک اسلامی سے وابستہ ہر فرد کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ وہ تحریک اسلامی کے بنیادی لٹریچر کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرے۔ مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کو باربار پڑھے۔ موجودہ دور میں اُمت کو فکری سطح پر زبردست چلینج درپیش ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سوشل ازم، کیپٹل ازم اور سیکولرازم کا چلینج درپیش تھا لیکن وہ خارجی سطح کا چیلینج تھا اور اُمت کے علماءکرام نے اس کامقابلہ کرکے اِن تمام فتنوں کی تباہ کاریوں کو کم از کم اُمت کے سواد اعظم پر واضح کردیاتھا۔لیکن آج جن نئے فتنوں کا چلینج اُمت کو درپیش ہے وہ خارجی نہیں بلکہ داخلی سطح کے ہیں۔ ہماری اپنی صفوں میں ایسے ایسے نظریات پروان چڑھائے جا رہے ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط دینی فکر کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ وہاں سے ایسی یلغار ہورہی ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چل پائے گا کہ کب ہم اپنی اصل دینی فکر سے دور ہوکر اُن فتنوں پر مبنی نظریات کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔وہاں سے مضبوط منطق کے ساتھ اور تاریخ اسلامی سے دور کی کوڑیوں کو ملاکر بات کی جاتی ہے، اگر سامنے والے کی تاریخ اسلامی پر گہری نظر نہ ہو اور اُن کی فکر مضبوط نہ ہوتو بڑی آسانی کے ساتھ ہم امریکی حمایت یافتہ اُس اسلام کے پرچارکوں کے چنگل میں پھنس جائےں گے جس میں اسلام کے بنیادی عقائد سے ہی برات کا اعلان کیا گیا ہے۔علامہ مودودیؒ نے بڑی بات کہی ہے کہ” اگر مطالعہ نہ کیا جائے تو ذہن کے سوتے خشک ہوجاتے ہیں او رپھر ذہن سے آب شیریں کی جگہ کیچڑ کی آمد شروع ہوجاتی ہے۔“ تحریک اسلامی کے وارثین کی حیثیت سے یہ فیصلہ اب ہمیں کرنا ہے کہ ہم ”آب شیریں“ کو ترجیح دیں یا پھر ”کیچڑ“ کو!!!

٭٭٭٭٭٭

One Response to "تحریکی کارکنان کتاب سے دور کیوں؟"

Leave a Reply

Your email address will not be published.