1963 کے سالانہ اجتماع کی یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔غلام نبی صدیقی

مضمون نگار جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے صفحہ اول کے ارکان میں شامل ہیں۔ روزنامہ اذان کے مدیر رہ چکے ہیں، اس وقت اُن کی عمر ۹۲ سال ہے،طویل العمر ہونے کے باوجود قلمی کاوش کے ذریعے سے دعوت دین کا کام جاری رہے ہوئے ہیں۔

1963 کے سالانہ  اجتماع کی یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔غلام نبی صدیقی

اس اجتماع کی روداد ایک تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ قافلہ سخت جان اپنے اپنے علاقوں سے اجتماع کی زینت بن رہے تھے۔ دو روز کے اس اجتماع میں کارروائی کے دوران میں ایک شق تنقید کی مجلس کا اہتمام ہوتا تھا۔ اجتماع نواب بازار میں درسگاہ اسلامی کے صحن میں منعقد ہورہا تھا۔ اس اجتماع میں جماعت کے متعلقین ایک سو کے قریب تھے ۔پروگرام کو زیادہ مؤثر اور فعال بنانے کے لیے ماہر القادری کی لکھی ہوئی ایک نظم ’’سلام اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی‘‘ بطور ابتداء پیش ہوئی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ’’سلام‘‘ ایک درد انگیز اور آنکھوں سے آنسو رُلانے والی ایک ایسی نظم ہے کہ دلوں کو چیر کر رگ رگ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محبت و رافت جاگزین کردیتی ہے۔ آنکھیں بھی روتی ہیں اور دل بھی روتا ہے ،یہاں تک کہ اجتماع گاہ میں ٹھاٹھیں اور سسکیاں مار مار کررونے کی آوازوںسے پورا اجتماع گاہ جیسے ماتم کدہ بن چکا ہے۔ یہ سلام گزاری ایک تاریخ اور یادگار بن کر اسلام اور ایمان کی یاد دلاتا ہے۔ اس اجتماع میں درس قرآن کا فریضہ امیر جماعت اسلامی سعدالدین صاحب مرحوم نے ادا کیا۔ امیر جماعت کے درس قرآن کو سننے میں رفقاء جن حالات سے گذرتے ہیں اسے بیان کرنا قلم سے باہر ہے۔ امیر جماعت جن واقعات و حالات اور حوادث پر نظر ڈال کر جس انداز سے بیان کرتے ہیں وہ ایسا ہے کہ دل اور آنکھیں رو رو کر پورے اجتماع گاہ کو ایک اشک آور سیلاب بناتا ہے۔ مجھے یاد ہے محترم گیلانی صاحب چیخ چیخ کر رو رہے تھے، قریب قریب دیگر رفقاء بھی ان ہی حالات سے گزرکراجتماع گاہ کو ایک ماتم گاہ بناتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک موقعہ پر کچھ رفقاء کو پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میں اُٹھا اور مرکز جماعت کے چھوٹے سے کمرے میں پانی کا ایک گڑھا اور گلاس رکھا ہوا تھا۔ کمرے کے اندر جاکر دیکھا کہ اس میں بیٹھے ہوئے دو پنڈت صاحبان جوسی آئی ڈی کی طرف سے کارروائی نوٹ کرنے کے ذمہ دارتھے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ رہے تھے۔ یہ وہ اثر تھا کہ جس سے اجتماع گاہ میں بیٹھے تمام رفیق درس قرآن سنتے سنتے آنسوؤں کو روک نہیں سکتے تھے۔ اسی کا اثر سی آئی ڈی کے اہلکاروں پر بھی پڑتا نظر آیا۔
پروگرام میں ایک مجلس تنقید کی تھی۔ جماعت کے اجتماعات میں تنقید کی شق انتہائی اہم تصور کی جاتی تھی۔ اس شق میں امیر جماعت سے لے کر تمام زعماء جماعت کی کارکردگی کو جانچا اور پرکھا جاتا تھا۔ اس اجتماع میں پہلے امیر جماعت سعد الدینؒ کی تنقید کا اعلان ہوا۔ رفقاء اُٹھے اور کہا کہ ہمارے امیر جماعت خوش دلی کے انداز سے رفقاء سے نہیں ملتے ہیں۔ مصافحہ اور معانقہ گویا دور کی بات ہے۔ امیر جماعت اپنی جگہ سے اُٹھتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے آنسو بہا بہا کر اپنی اس عادت کی بات کو قبول کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ خود بھی اپنی اس عادت سے نالاں ہیں۔ اصل میں یہ عادت کسی گھمنڈ یا کبر کا اظہار نہیں ہے صرف افتاد طبع ہے اور میں خود اسے محسوس کرتا ہوں۔
مولانا احرارؒ امیر ضلع اسلام آباد کے نام کا اعلان ہوا اور جو تنقید ان پر ہوئی ، وہ یہ تھی کہ انہوں نے دھان کی ایک مشین جالندھر سے خرید کر لائی تھی ، وہ جب بٹہ وارہ گذر پر پہنچی تو قاعدے کے مطابق کسٹم پر اس کی کچھ رقم ادا کرنی ہے۔ اس کے بعد وہاں سے مشین لے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ مولانا احرار کے ساتھ ایک اور صاحب بھی تھے جس نے مشین خریدی تھی اور اب بٹہ وارہ کسٹم پر اس کی چونگی ادا کرنی لازم تھی۔ رقم بچانے کے لیے اس شخص نے کچھ رقم بطور رشوت چونگی کے ایک ملازم کو دے کر یہ سمجھا کہ مشین کو چھڑانے کے لیے وہ زیادہ رقم ادا کرنے سے بچ جائیں گے۔احرار صاحب کو اس پورے معاملے کی کوئی خبر نہیں تھی۔اس کے باوجود مولانا احرار صاحب سے پوچھا گیا کہ ایک حرام شئے کو قبول کرکے کس طرح (رشوت )ادا کرنے کی اجازت دی۔ اجتماع گاہ میں شور برپا ہوا۔ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، رشوت کا لین دین اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ تو حرام کو حلال کرنے کی کیا بنیاد ہے ، احرار صاحب نے اس پورے معاملے پر اپنی بے خبری کوظاہر کرکے اجتماع گاہ میں معصومیت اور بے خبری سے اپنے نقادوں کو مطمئن کرنا چاہا مگر معاملے کی سنگینی کے پیش نظر امیر جماعت اپنا فیصلہ سنانے پر مجبور ہوا۔ وہ جب اُٹھے تو اجتماع گاہ پر خاموشی طاری ہوئی۔
امیر جماعت نے پہلے رشوت کے لین دین کو شریعت کی کسوٹی پر رکھ کر فیصلہ سنایا کہ رشوت قطعی طور پر حرام ہے ۔ لینے والا اور دینے والا دونوں پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ امیر محترم نے احرار صاحب کو بری قرار دیا اور ان کے ساتھی کو جماعت سے خارج کرنے کی صلاح دے دی۔
دوسرے امرائے اضلاع پر تنقیدکی باری آئی لیکن ان کے رو پر تنقید کچھ بھاری نظر نہیں آئی۔ آج کل کے اجتماعات میں اب یہ شق ختم ہوچکی ہے۔
(مضمون نگار زعیم جماعت ہیں، ایڈیٹر اذان کے علاوہ جماعت میں دیگر متعدد ذمہ داریوں پر فائز رہے ہیں۔ )

Leave a Reply

Your email address will not be published.