افسانہ۔۔۔۔۔ جہلم

افسانہ۔۔۔۔۔ جہلم

ساحل احمد لون….پلوامہ 

کئی مساجد سے بیک وقت نمازِعشاءکی اذانیں بلند ہوئیں توشبیر جیسے کسی گہرے خواب سے بیدار ہوگیا۔اُس نے دائیں بائیں نگاہ دوڑائی اور پھر اپنے وجود کو دیکھنے لگا۔کئی گھنٹوں کی مسلسل بارشوں نے اُس کا سارا بدن بگویا تھا۔جس مقام پر وہ کھڑا تھا وہاں دور دور تک انسانوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا کیونکہ جس نگر میں وہ رہتا تھا وہاں لوگوں کا عشاءکے وقت گھروں سے نکلنا موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا۔ اُس کے چہرے سے بیک وقت بارش اور آنسوو¿ں کے قطرے ٹپک رہے تھے۔دریائے جہلم کے کنارے کھڑا ۵۳ برس کا شبیر دریا کی گہرائی میں کسی کو تلاش کر رہا تھا،اُس کی آنکھوں میں جوں ہی کسی کی تصویر اُبھرتی تو اُس کی آنکھوں سے ٹپکنے والے نمکین قطرے اُس منظر کو دھندلا بنا دیتے….!

۸سال قبل شبیر کی شادی ہوئی تو اُس کی بوڑھی ماں رحتی نے چین کی سانس لی۔شبیر کا کنبہ دو ہی لوگوں پر مشتمل تھا،وہ اور اُس کی ماں۔اُس کے والد نے اُس کے پیدا ہونے کے چند ماہ بعد ہی دوسری شادی کرلی اور رحتی کو گھر سے بے دخل کردیا کیونکہ شبیر کی پیدائش کے وقت ڈاکٹروں نے اُس کے والد کو ےہ اطلاع دی تھی کی رحتی اب دوبارہ کبھی اولاد پیدا نہیں کرسکتی۔اُس نے اپنے خاوند سے کچھ بھی نہیں مانگا، سوائے اپنے بیٹے کے۔گھر سے نکالے جانے کے بعد اُس نے اپنے ماں باپ پر بوجھ بننا مناسب نہ سمجھا اور کرایہ کا ایک کمرہ لے کر ایک نجی سکول میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے لگی۔چار پیسے جمع ہوئے تو اُس نے کرائے کے کمرے کو خیرباد کہا اور خود دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا۔ہر ماں کی طرح اُسے بھی اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کا شوق تو تھا لیکن وسائل کی عدم دستیابی کے باعث اس کا ےہ خواب ادھورا ہی رہ گیا۔شبیر نے بارہویں جماعت تک ایک سرکاری سکول سے تعلیم حاصل کی۔ماں کے بڑھاپے کی جانب بڑھتے قدموں کو ملحوظِ نظر رکھ کر اُس نے بارہویں جماعت کے بعد اپنی تعلیم کو خیر باد کیا اور ایک نجی کمپنی میں کام کرنے لگا۔اُس نے جوانی میں قدم رکھا تو اُس کی ماں کو اُس کی شادی کی فکر دامن گیر ہوگئی،چنانچہ جلد ہی اُس کی شادی ایک خوبصورت و خوب سیرت لڑکی رُتبہ سے ہوگئی۔

تین لوگوں پر مشتمل اُن کا چھوٹا سا کنبہ ایک خوشحال زندگی بسر کر رہا تھا۔شبیر اور رُتبہ کی شادی کو ابھی بہار میں چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ اُن کے در پہ خزاں نے دستک دی۔اُن کی بستی میں ایسا ہی ہوتا تھا،وہاں سالہا سال صرف خزاں کا موسم رہتا تھا۔اُنہیں ہر روز کسی نہ کسی شخص کی بلَی دینی پڑتی تھی۔اب کی بار رُتبہ کی باری تھی….!

فوج نے رات کے ۱۱بجے جنگجوو¿ں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع موصول ہونے پر اُن کے محلے کا محاصرہ کیا ۔بستی کے دیگر مکانوں کی طرح اُن کے مکان میں بھی فوجی اہلکار تلاشی کارروائی کے لئے داخل ہوئے۔اُن کے گھر میں موجود سارے سامان کو تہس نہس کیا گیا تو رُتبہ آپے سے باہر ہوگئی اور اہلکاروں سے زبان لڑانے کی ’حماقت ‘ کرلی۔اُس کے اسی ”قصور“ کی وجہ سے پہلے تو شبیر کو رسیوں سے باندھا گیا اور پھر اُس کی آنکھوں کے سامنے رُتبہ کی عصمت کو تار تار کیا گیا۔شبیر اور اُس کی بوڑھی ماں گڑگڑاتی رہی لیکن بستی کے لاکھوں لوگوں کی طرح اُن کی ایک بھی نہ سُنی گئی۔اہلکاروں کا جنسی جنون ختم ہوا تو اُنہوں نے شبیر کو چھوڑ دیا اور اُسے ڈرا دھمکا کر چلے گئے….کئی گھنٹے گزرنے کے بعد شبیر صدمے سے باہر آیا تو کمرے میں اُس کی ماں اور بیوی بے حس وحرکت ذبح کئے ہوئے جانور کی طرح پڑی تھیں۔اُس نے ماں کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ،رحتی کے ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈے ہوچکے تھے۔وہ مسلسل چھت کو گھور رہی تھی،اُس کی زبان ہمیشہ کے لیے خاموش ہوچکی تھی!اُس نے بڑے پیار سے ماں کے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیرا اورکمرے کے کونے میں پڑی رُتبہ کی جانب قدم بڑھائے۔ رتبہ کو نہ جانے کیا ہوا ،وہ ایک زور دارجھٹکے کے ساتھ کھڑی ہوئی اور گھر سے بھاگنے لگی۔شبیر نے اُس کا تعاقب کیا لیکن وہ ایک گھائل شیرنی کی طرح دوڑ رہی تھی۔اُن کے گھر سے چند سو میٹروں کے فاصلے پرمشہور دریائے جہلم واقع تھا۔رُتبہ وہاں پہنچی تو اُس نے آو دیکھا نہ تاو¿، جہلم میں چھلانگ مار دی…. چنانچہ اس مشہور ومعروف دریا سے صرف خوش قسمتوں کی لاشیں ہی واپس ملتی تھی۔رُتبہ اُن خوش قسمتوں میں نہیں تھی!….جہلم ،جس کے صاف و شفاف پانی کی کبھی مثالیں پیش کی جاتی تھی،آج شہر کے ہزاروں معصوموں کے خون سے لال ہوچکا تھا۔جہلم صرف ایک دریا نہیںبلکہ شہر میں دہائیوں سے چل رہے تنازعہ کی بھینٹ چڑھنے والے ہزاروںلوگوں کی آخری آرام گاہ کا نام تھا۔

آج آٹھ سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی شبیر کے دل میںنہ جانے کیوں رتبہ کو پانے کی آس تھی۔وہ روز دریائے جہلم کے کنارے کھڑا ہوکر رُتبہ کو تلاش کرتا تھا۔آج بھی حسب معمول وہ جہلم کی گہرائی میں رُتبہ کو تلاش کررہا تھا۔کافی دیر تک متلاشی نگاہوں سے جہلم کی جانب دیکھنے کے بعد وہ آج حسب معمول گھر نہیں لوٹا بلکہ اُس نے ایک اہم فیصلہ لیا،جہلم کی گہرائی میں اُتر کر رُتبہ سے ملنے کا فیصلہ! چوں کہ آٹھ سال قبل اسی مقام پررُتبہ نے جہلم میں چھلانگ ماری تھی،آج اسی مقام پر اُس کے شوہر نے بھی اُس کی تقلیدکرتے ہوئے جہلم میں چھلانگ ماردی۔ پانی کی سطح پر اگرچہ چند بلبلے نمودار ہوئے لیکن جلد ہی غائب بھی ہوگئے۔شبیر جہلم کی تہہ تک پہنچ گیا ۔ایک جواں سال لڑکی نے اپنے مکان کی دوسری منزل سے شبیر کو چھلانگ مارتے دیکھا اور زور زور سے چلانے لگی ۔دریا کے اردگرد آناًفاناً سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے۔اُن کی نظروں میں شبیر مر گیا لیکن حقیقتاً وہ جہلم کے سینے میں رہائش پذیر ہزاروں لوگوں کی ’بستی‘ کا حصہ بن گیا!!!۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.