آپ…. کو یہ غلط فہمی [ہوئی] ہے کہ اقامت ِ دین کی سعی ہرحال میں صرف فرضِ کفایہ ہے۔ حالاں کہ یہ فرضِ کفایہ صرف اسی حالت میں ہے، جب کہ آدمی کے اپنے ملک یاعلاقے میں دین قائم ہوچکا ہو ، اور کفّار کی طرف سے اس دارالاسلام پر کوئی ہجوم نہ ہو، اور پیشِ نظر یہ کام ہو کہ آس پاس کے علاقوں میں بھی اقامت ِ دین کی سعی کی جائے۔ اس حالت میں اگر کوئی گروہ اس فریضے کو انجام دے رہا ہو، تو باقی لوگوں پر سے یہ فرض ساقط ہوجاتاہے اور معاملے کی نوعیت نمازِ جنازہ کی سی ہوتی ہے۔
لیکن اگر دین خود اپنے ملک ہی میں مغلوب ہو، اور خدا کی شریعت متروک و منسوخ کرکے رکھ دی گئی ہو، اور علانیہ منکرات اور فواحش کا ظہور ہو رہا ہو، اور حدود اللہ پامال کی جارہی ہوں، یا اپنا ملک دارالاسلام تو بن چکا ہو مگر اس پر کفّار کے غلبے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہو، تو ایسی حالتوں میں یہ فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہوتا ہے، اور ہروہ شخص قابلِ مواخذہ ہوگا، جو قدرت و استطاعت کے باوجود اقامت ِ دین اور حفاظت ِ دین کے لیے جان لڑانے سے گریز کرے گا…..
فقہ کی کتابوں میں جہاد کی بحث نکال کر دیکھ لیں کہ ہجومِ عدُو [دشمن کی یلغار]کی صورت میں جہاد فرضِ کفایہ ہے یا فرضِ عین۔ جس زمانے میں فقہ کی یہ کتابیں لکھی گئی تھیں، اُس وقت ممالک اسلامیہ میں سے کسی جگہ بھی اسلامی قانون منسوخ نہیں ہوا تھا اور نہ حدودِ شرعیہ معطل ہوئی تھیں۔ اس لیے انھوں نے صرف ہجوم عدو ہی کی حالت کا حکم بیان کیا تھا۔ لیکن، جب کہ مسلمانوں کے اپنے وطن میں کفر کا قانون نافذ اور اسلام کا قانون منسوخ ہو، اور اختیار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو حدود اللہ کی اقامت کو وحشیانہ فعل قرار دیتے ہیں، تو معاملہ ہجومِ عدُو کی نسبت کئی گنا زیادہ سخت ہوجاتا ہے، اور اس صورت میں کوئی شخص جو دین کا کچھ بھی فہم رکھتا ہو، اقامت ِ دین کی سعی کو محض فرضِ کفایہ نہیں کہہ سکتا۔ (’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۸، عدد۴، شوال ۱۳۷۶ھ، جولائی ۱۹۵۷ء، ص ۵۶-۵۷)