منگل, دسمبر ۲۳, ۲۰۲۵
4.8 C
Srinagar

جموں وکشمیرمیں اُردو ، کشمیری ادب کا ایک اور درخشاں ستارہ غروب!

نامور براڈکاسٹر، ادیب اور شاعر عبدالاحد فرہاد کا انتقال ، ایک عہد کا اختتام،ایشین میل ،ادبی وقلمی دنیا سوگوار،مختلف انجمنوں کا مرحوم کی ہمہ رُخی خدمات کو خراج


شوکت ساحل

سرینگر:وادی کشمیر کے ممتاز اور ہمہ جہت براڈکاسٹر، معروف ادیب، شاعر، قلم کار اور صوفی مزاج دانشور عبدالاحد فرہاد پیر کی صبح جموں میں انتقال کر گئے۔وہ کشمیری ادب، صحافت اور نشریات میں ایک عظیم ورثہ چھوڑ گئے۔ عبدالاحد فرہاد وسیع پیمانے پر دو لسانی خبروں کے پڑھنے میں ایک رجحان ساز اور جموں و کشمیر کی ایک عظیم ثقافتی شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ان کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی جموں و کشمیر کے ادبی، صحافتی، ثقافتی اور نشریاتی حلقوں میں گہرے رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ یوں محسوس ہوا کہ کشمیر کی فکری اور تہذیبی دنیا ایک درخشاں ستارے سے محروم ہو گئی ہے۔مرحوم کی میت پیر کے روز جموں سے سرینگر لائی گئی، آبائی علاقہ صورہ سرینگر میں شام چار بج کر15 منٹ پر ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ میں ادیبوں، قلمکاروں، شاعروں، صحافیوں، سماجی کارکنوں اور معاشرے کے ذی شعور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بعد ازاں مرحوم کو ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ جنازے میں عوام کی غیر معمولی شرکت اس بات کی غماز تھی کہ عبدالاحد فرہاد محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک فکری روایت اور اجتماعی شعور کا حصہ تھے۔

ایک درخشاں اور ہمہ جہت شخصیت:13 اپریل1946 کوآنچار صورہ سری نگرکے بٹ خاندان میں پیدا ہوئے، عبدالاحدفرہاد نے اپنی اسکول کی تعلیم زڈیبل سری نگر سے مکمل کی، کالج کی تعلیم ایس پی کالج سے حاصل کی، اور کشمیر یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ پوسٹ گریجویشن مکمل کرنے کے فوراً بعد، عبدالاحد فرہادنے1972 میں ایک انٹرمیڈیٹ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ریڈیو کشمیر میں شمولیت سے قبل ڈیلی وولر کے ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ بعد میں عبدالاحد فرہادنے ایک دو لسانی نیوز ریڈر کے طور پر خدمات انجام دیں اور خبروں کی پیشکش کو ایک الگ انداز اور وقار دینے کے لیے مشہور ہوئے۔ عبدالاحد فرہاد نے سری نگر سے شائع ہونے والے موقر اُردو روزنامہ آفتاب کےلئے’ کوکب کشمیری ‘کے قلمی نام سے کالم بھی لکھے اور بہت زیر بحث یونیورسٹی ڈائری کی تصنیف کی، جو تاحال یاد رکھی جاتی ہے۔ بیچلر کی تعلیم کے دوران شاعر کے طور پر منظور شدہ، عبدالاحد فرہادنے1984 میں ایک قومی سمپوزیم میں کشمیری زبان کی نمائندگی کی اور دسمبر 2008 میں مکہ میں منعقدہ بین الاقوامی اجتہاد کانفرنس میں ایک وسیع لیکچر دیا۔ عبدالاحد فرہاد نے کئی قابل ذکر کاموں کا ترجمہ کیا، جن میں مرحوم مخمور سیدی اور سری گرو نارائن کی تحریریں شامل ہیں۔ انہوں نے 1975 میں پسو گھاٹی سے امرناتھ یاترا کی لائیو کمنٹری بھی کی۔ ریڈیو کشمیر میں اپنے کیریئر کے دوران، عبدالاحد فرہاد نے کئی باوقار پروگراموں کی منصوبہ بندی کی اور پروڈیوس کیے جیسے وادی کی آواز، سنگرمل، ملاقات، نوجوانوں کے پروگرام، اور کھٹ کے لیے شکریہ۔ انہوں نے تہواروں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر 20 سے زیادہ میوزیکل فیچرز تصنیف کیں اور مختلف موضوعات پر متعد2ستاویزی فلمیں لکھیں۔ عبدالاحد فرہادنے سفرنامے بھی لکھے جن میںکھنہ بل پیٹھ کھڈنیار، صورہ پیٹھ سربل، سینڈ ٹا سفر، قاضی گنڈ پیٹھ کوپاور اور ویتھ چا پیکان شامل ہیں۔ فرہاد نے ترخ مال، گاشیر، زیتنی ذول، تبرک، عظمت نشان، شخصیات اور مشہور شہر جیسے مشہور ٹیلی ویڑن شوز کا اسکرپٹ اور کمپیئر کیا۔ عبدالاحد فرہاد کی نعت’باخداہ ساری خودائی آسہ ہا پردن اندر‘کاسہ ہا نے زانڈ ظلماتن رسول محترمﷺ“، جسے پدم شری شمیمہ دیو آزاد نے گایا، پورے برصغیر میں مقبولیت حاصل کی۔ ان کی نظم ’حبل وطن من ایمان‘کا 26 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، جب کہ ان کے کلام کو معروف کشمیری گلوکاروں نے پیش کیا جن میں غلام حسن صوفی، راج بیگم، نسیم اختر، کیلاش مہرا، قیصر نظامی اور دیگر کے علاوہ دلراج کور جیسے پلے بیک گلوکار بھی شامل تھے۔عبدالاحد فرہاد کو کئی باوقار اعزازات سے نوازا گیا، جن میں آل انڈیا کشمیری پنڈت سماج، انجمن مظہر الحق، شاکر اسلم ایوارڈ، فنکار کلچرل آرگنائزیشن، ریڈیو کشمیر سری نگر اور بزم ثقافت بڈگام کے اعزازات شامل ہیں۔تصوف اور اہلِ تصوف سے ان کا ذہنی اور قلبی تعلق تھا۔ خانقاہی روایت کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر انہوں نے صوفیت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ایک انٹرویوور کی حیثیت سے انہوں نے کشمیر کے اطراف و اکناف میں سینکڑوں شعرا، نوآموز صوفیوں اور تصوف و سلوک سے وابستہ شخصیات و مقامات کو اجاگر کیا اور انہیں عوامی سطح پر متعارف کرایا۔ریڈیو کشمیر سے سبکدوشی کے بعد بھی ان کا فکری سفر رکا نہیں۔ انہوں نے نجی ٹیلی وڑن چینلوں، سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعے انٹرویوز اور ادبی مکالمے کا سلسلہ جاری رکھا اور نئی نسل کی رہنمائی کرتے رہے۔

ادارہ ایشین میل کے لیے بڑا نقصان:ادارہ ایشین میل کے لیے عبدالاحد فرہاد کا انتقال ایک ناقابلِ تلافی صدمہ ہے۔ انہوں نے ایشین میل کے ملٹی میڈیا پلیٹ فارم سے ”بزمِ عرفان“ جیسے فکری اور باوقار پروگرام کی میزبانی کی، جس کے ذریعے ادب، تصوف اور ثقافت کو فروغ ملا اور کئی گمنام اہلِ قلم کو شناخت حاصل ہوئی۔ ان کی وابستگی ادارے کے لیے باعثِ افتخار رہی۔مرحوم گزشتہ کچھ عرصے سے موسمِ سرما کی شدت اور سانس کی تکلیف کے باعث جموں کے بٹھنڈی علاقے میں مقیم تھے، جہاں پیر کی صبح ان کا انتقال ہوا۔ پسماندگان میں اہلیہ اور ایک بیٹی صائمہ فرہاد شامل ہیں، جو کشمیر یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں۔تعزیت و خراجِ عقیدت:ادارہ ایشین میل کے مدیرِ اعلیٰ رشید راہل، معاون مدیر شوکت ساحل، منیجنگ ایڈیٹر محبوب جیلانی، سینئر نامہ نگار فردوس وانی، سینئر رکن محمد اشرف، سماجی کارکن حمید ناصر اور ایڈوکیٹ اسرار علی نے مرحوم کی رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے کشمیر کی ادبی و نشریاتی دنیا کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا۔مدیرِ اعلیٰ رشید راہل نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے کشمیری ادب اور نشریات کو نئی شناخت دی۔ان کی وفات علمی و فکری دنیا کے لیے ایک ایسا خلا ہے جو کبھی پ±ر نہیں ہو سکے گا۔معاون مدیر شوکت ساحل نے مرحوم کی رحلت کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ خلوص، علم اور تخلیقی شعور کا روشن استعارہ تھے۔ان کی خدمات کشمیری صحافت اور ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔منیجنگ ایڈیٹر محبوب جیلانی نے کہا کہ مرحوم نے اپنی تحریر اور فکر سے معاشرے کی مثبت رہنمائی کی۔ان کا جانا کشمیری ادبی اور نشریاتی حلقوں کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔سینئر نامہ نگار فردوس وانی، سینئر رکن محمد اشرف، سماجی کارکن حمید ناصر اور ایڈوکیٹ اسرار علی نے بھی مرحوم کی وفات پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے کشمیر کی ادبی و نشریاتی دنیا کے لیے ایک بڑا اور ناقابلِ تلافی سانحہ قرار دیا۔اسی طرح جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز، جموں کشمیر انجمن اردو صحافت اور دیگر ادبی و صحافتی تنظیموں نے بھی مرحوم کے انتقال پر دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خدمات کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کیا۔عبدالاحد فرہاد کی آواز، فکر اور ادبی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل نصیب فرمائے۔احد زرگر میموریل ریسرچ فاﺅنڈیشن کے سربراہ ،خورشید احمد زرگر نے بھی عبدالاحد فرہاد کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کے صدر اور سابق انفارمیشن آفیسر حمید اللہ شاہ حمید نے عبدالاحد فرہاد کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار خاندان، لواحقین اور مداحوں سے دلی تعزیت کا اظہار کی اوردعا کی کہ اللہ تعالی ان کے اہل خانہ کو یہ ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنے کی ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجزنے ممتاز کشمیری ادبی و ثقافتی شخصیت عبدالاحد فرہاد کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے، جن کی وفات سے کشمیر کے ادبی و ثقافتی ورثے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اکیڈمی کے سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری نے لواحقین سے تعزیت کی اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی۔ عبدالاحد فرہاد کو کشمیری ادب و شاعری کی ایک منفرد اور گہری آواز قرار دیا گیا، جن کی زبان، ثقافت، صوفی روایت اور نشریات کے شعبے میں خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، نیز انہوں نے نوجوان لکھنے والوں کی رہنمائی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ادب کی دنیا آج ایک ایسی آواز سے خالی ہوگئی جس نے لفظوں کو معنی اور خیال کو وقار بخشا۔ مرحوم عبدالاحد فرہاد کی تخلیقات نے نسلوں کو سوچنے، محسوس کرنے اور بہتر انسان بننے کا حوصلہ دیا۔ادب کے تئیں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کا چراغ فن آنے والے وقتوں میں بھی روشنی دیتا رہے گا۔ان خیالات کا اظہار اندر کلچرل فورم اندر کوٹ سمبل کی جانب سے فورم کے صدر سلیم یوسف کی صدارت میں وادی کشمیر کے معتبر ادبی و نشریاتی چہرہ، نامور براڈکاسٹر، ادیب اور شاعر عبدالاحد فرہاد کی یاد میں بلائے گئے ایک تعزیتی اجلاس میں کیا گیا۔عبدالاحد فرہاد کا انتقال جموں میں ہوا اور ان کے انتقال کی خبر سنتے ہی وادی کشمیر کے ادبی، صحافتی، ثقافتی اور نشریاتی حلقوں میں گہرے رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ فورم کی جانب سے منعقدہ ماتمی اجلاس میں مقررین نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ عبدالاحد فرہاد ایک ہمہ جہت، سنجیدہ اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے ادب کے میدان میں طویل عرصے تک فکری دیانت، تہزیبی شعور اور خلوص کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ان کی تحریروں میں فکری گہرائی، اسلوب میں شائستگی اور گفتگو میں وقار نمایاں تھا۔اجلاس کے اختتام پر فورم کے صدر سلیم یوسف نے کہا کہ کہ دکھ کی اس گھڑی میں فورم کے تمام ممبران مرحوم کے لواحقین کے غم میں برابر شریک ہیں اور خداوند کریم سے دعا کی گئی کہ مرحوم کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے۔ان کے انتقال پر ادبی، ثقافتی اور میڈیا حلقوں میں بڑے پیمانے پر سوگ کا اظہار کیا گیا ہے، جنہوں نے ان کے انتقال کو جموں و کشمیر کے ثقافتی ورثے کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔معروف براڈکاسٹر طلحہ جہانگیر کے مطابق عبدالاحدفرہاد کی صرف یہ نعت”باخداہ ساری خودائی آسہ ہا پردن اندر‘کاسہ ہا نے زانڈ ظلماتن رسول محترمﷺ‘ ہی انکے مرتبے کو اتنا بلند کرتی ہے کہ انکی شخصیت کے دوسرے پہلووں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ عبدالاحدفرہادموسم سرما کی شدت کی وجہ سے گزشتہ کئی ہفتوں سے جموں کے بٹھنڈی علاقے میں مقیم تھے کیونکہ اُنہیں بسا اوقات سانس کی تکلیف رہتی تھی۔ انکے لواحقین میں انکی اہلیہ اور ایک بیٹی صائمہ فرہاد ہیں، جو کشمیر یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔مرحوم عبدالاحدفرہادکی میت کو پیرکی دوپہرجموں سے سرینگر منتقل کیا گیا ،جہاں نماز عصر کے بعد آبائی مقبرہ واقع صورہ سری نگرمیں مرحوم کی تجہیز و تکفین انجام دی گئی۔نماز جنازہ میں سماج کے مختلف طبقوں وحلقوں سے وابستہ لوگوںکی ایک بڑی تعدادنے سخت سردی کے باوجود شرکت کی ۔ادھرکشمیر اردو کونسل کے ترجمان جاوید ماٹجی کے مطابق مرحوم عبدلاحد فرہاد ایک منجھے ہوئے شاعر، ادیب، مترجم اور براڈکاسٹر تھے۔ یہ چھہ ریڈیو کشمیر سرینگر:’وونی بوزو توہ فرہاد نہ زیوہ خبرہ ‘ کا فقرہ آ ج بھی کشمیر میں لاکھوں لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔جاوید ماٹجی کے مطابق فرہاد اصل میں صورہ کے اندرون میں آ نچہار کے مکین تھے اور آ ج کل احمد نگر میں رہائش پذیر تھے۔ مرحوم عبدلاحد فرہاد کو اُردو اور کشمیری زبانوں پر عبور حاصل تھا اور شاعری بالخصوص صوفی شاعری کے دلدادہ تھے۔ آ پ خود بھی صوفی ازم سے خاصےمتاثر تھے اور صوفیاءکی صحبت میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ساری عمر لکھنے اور پڑھنے میں صرف کی کشمیری شاعری کی طرف البتہ زیادہ میلان تھا۔ مرحوم کی اصل پہچان ایک منجھے ہوئے براڈکاسٹر کے طور تھی۔ مزاج کے اندر ظرافت کے اجزا بھی تھے۔ ان کے انتقال پر مختلف ادبی، صحافتی اور سماجی حلقوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔جموں کشمیر انجمن اردو صحافت نے بھی ان کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ادبی خدمات کو سراہا ہے۔عبدالاحد فرہاد کی تحریروں میں گہرائی اور وضاحت تھی، جبکہ ان کی عوامی مصروفیات ثقافتی اقدار کے ساتھ مضبوط وابستگی کی عکاسی کرتی ہیں۔کشمیر کی ممتاز ادبی شخصیت عبدالاحد فرہاد کئی ادبی پلیٹ فارمز سے وابستہ رہے اور انہوں نے ادب اور نوجوان ادیبوں کو فروغ دینے والے پروگراموں کی میزبانی کی۔

Popular Categories

spot_imgspot_img