پیپر ماشی مصنوعات کے خریدار دنیا بھر میں موجود ہیں۔ زندہ رنگوں اور ہاتھ کے باریک نقش و نگار سے مزین یہ آرٹ بھارت سمیت یورپ، امریکہ اور خلیجی ممالک میں بے حد مقبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال کا سب سے بڑا سیزن—کرسمس—کاریگروں کے لیے سب سے زیادہ کام اور کمائی کا موقع بن کر آتا ہے۔
سری نگر سے تعلق رکھنے والے اقبال خان ، جو گزشتہ تین دہائیوں سے پیپر ماشی کے ہنر سے وابستہ ہیں، بتاتے ہیں:’سال بھر کے مقابلے میں کرسمس سیزن ہمارے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ ہمیں چھ سے آٹھ ماہ پہلے ہی آرڈرز ملنے لگتے ہیں اور ان میں زیادہ تر بیرونِ ملک سے آنے والی ڈیکوریشن مصنوعات ہوتی ہیں’۔
انہوں نے یو این آئی کو بتایا:’امسال بھی کرسمس کے لیے ہمیں ملک کے علاوہ امریکہ، جرمنی، آسٹریلیا اور عرب ممالک سے آرڈرز ملے ہیں۔ کرسمس ڈیکوریشن، بال، اسٹار اور مختلف آئی ٹائمز کی لاکھوں کی تعداد میں ڈیمانڈ ہوتی ہے’۔
اقبال نے بتایا کہ کرسمس سے دو سے تین ماہ پہلے کاریگر مسلسل دس سے بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں، تاکہ آرڈرز وقت پر روانہ کیے جا سکیں۔
تاہم انہوں نے اس سال کی ایک تلخ حقیقت بھی بیان کی۔ ان کے مطابق پہلگام حملے کے بعد وادی میں اچانک سیاحوں کی آمد کم ہوگئی، جس سے پیپر ماشی اور دیگر دستکاریوں کی مقامی سطح پر فروخت شدید متاثر ہوئی۔
انہوں نے کہا: ‘سیاح کم آئے تو ظاہر ہے پیپر ماشی خریدنے والے بھی کم ہو گئے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ہزاروں روپے کی مصنوعات بنا کر بیٹھے رہ گئے۔ یہ صنعت سیاحت پر بھی بہت منحصر ہے’۔
موصوف کاریگر نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے اس سال غیر ملکی سیاحوں کی تعداد نہایت کم رہی، جس کی وجہ سے کاریگروں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پیپر ماشی کا ہنر کشمیر میں شاہِ ہمدانؒ کے دور میں وسط ایشیا سے آیا۔ ابتدائی دور میں اسے ’مشیقاری‘ کہا جاتا تھا، جس کا بنیادی مقصد قیمتی اشیاء کی تزئین و آرائش تھا۔ رفتہ رفتہ یہ آرٹ گھرانوں تک منتقل ہوتا گیا اور آج یہ صنعت کشمیر کی پہچان بن چکی ہے۔
پیپر ماشی کی تیاری دو مراحل پر مشتمل ہوتی ہے:ساقھت سازی — جہاں کاغذ کو گوند کے ساتھ مخصوص سانچوں میں ڈھالا جاتا ہے۔نقاشی و رنگ سازی — جس میں کاریگر باریک قلم سے روایتی کشمیری ڈیزائن بناتے ہیں۔یہ پورا عمل مہینوں کی محنت اور باریک بینی کا تقاضا کرتا ہے۔
پیپر ماشی کی اصل طاقت ہی اس کے کاریگر ہیں، لیکن نئی نسل روایتی فنکاری سے دور ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ اس میں محنت زیادہ اور کمائی کم ہے۔
اگرچہ اس سال کرسمس آرڈرز نے کاریگروں کے چہروں پر کچھ مسکراہٹ ضرور لوٹائی ہے، مگر مجموعی صورتحال اب بھی چیلنجنگ ہے۔ سیاحت میں کمی، خام مال کی قیمتوں میں اضافہ، بیرون ملک مارکیٹ تک رسائی نہ ہونا اور مشینی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ اس صنعت کو دھیرے دھیرے کمزور بنا رہی ہے۔
اس کے باوجود کشمیر کے کاریگر آج بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ اگر حکومت، صنعتی ادارے، اور مارکیٹنگ سٹیک ہولڈرز سنجیدگی سے آگے آئیں تو پیپر ماشی نہ صرف کشمیر کی پہچان کو دنیا بھر میں مزید مستحکم بنایا جا سکتا ہے بلکہ ہزاروں نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار بھی فراہم کر سکتا ہے۔
وادی کے کاریگروں کا ماننا ہے: ‘اگر اس ورثے کو سنبھالا جائے تو پیپر ماشی نہ صرف زندہ رہے گی بلکہ آنے والی نسلوں تک فخر کے ساتھ منتقل ہوگی—جیسا کہ ہمارے بزرگوں نے ہمیں منتقل کی’۔




