ہفتہ, اکتوبر ۱۸, ۲۰۲۵
13.2 C
Srinagar

سینکڑوں اسکول سرکاری تحویل میں۔۔۔۔۔۔

حکومت نے گزشتہ شام ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے جموں و کشمیر میں ممنوعہ تنظیم جماعتِ اسلامی اور فلاحِ عام ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام چلائے جا رہے اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا، جو کہ عوامی سطح پر ایک بڑا قدم مانا جا رہا ہے۔ایک حکم نامے کے مطابق، گزشتہ شام اس حوالے سے جموں و کشمیر یوٹی انتظامیہ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ریاست میں چل رہے ،ان اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لے۔ اس ضمن میں تمام ضلع مجسٹریٹ، محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کر طریقہ کار وضع کریں تاکہ ان اسکولوں کی باگ ڈور سنبھالی جا سکے اور یہاں زیرِ تعلیم بچوں کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔حکومت کے اس فیصلے پر عوامی حلقوں میں ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملا۔ تاہم عام لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر فلاحِ عام ٹرسٹ اور دیگر تنظیمی ذمہ داران واقعی وادی میں تعلیم و تربیت کو فروغ دینے اور بچوں کا مستقبل سنوارنے پر یقین رکھتے ہیں، تو پھر اگر سرکار ان اسکولوں کو سرکاری سطح پر چلانے کا فیصلہ کرتی ہے، تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
اکثر یہ بات کہی جا رہی تھی کہ ان اسکولوں میں جماعتِ اسلامی نظریہ سے منسلک اساتذہ پڑھاتے ہیں اور ان کا مقصد جماعت کے نظریات کو آگے بڑھانا تھا۔بہرحال یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان اسکولوں سے اب تک کئی ڈاکٹر، انجینئر اور بڑے اسکالر نکلے ہیں، جو سرکاری سطح پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ یہاں سے نکلنے والے کئی طلبہ کا نظریہ جماعتِ اسلامی سے ہم آہنگ ہوتا ہے، لیکن بہت سے ایسے طلبہ بھی انہی اداروں سے نکلے ہیں جو صوفی نظریہ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔بہرکیف، جماعتِ اسلامی کو اس بنا پر ممنوعہ قرار دیا گیا تھا کہ اس جماعت نے جموں و کشمیر میں تین دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے دوران اپنا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کر لیا تھا اور مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں پر قبضہ جما رکھا تھا۔جموں و کشمیر میں کئی ایسے ادارے ہیں جنہیں چلانے والے افراد یا جماعتیں صرف اپنے مخصوص نظریات کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ تجارتی ادارے بھی ہیں، جن سے معقول آمدنی حاصل کی جاتی ہے اور یہ رقومات بعد ازاں تنظیمی ڈھانچوں پر صرف کی جاتی ہیں۔ جہاں تک عام عوام کا تعلق ہے، انہیں ان رقومات سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچایا جاتا۔
جماعتِ اسلامی اور فلاحِ عام ٹرسٹ کے زیرِ نگرانی چلنے والے215 اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لینے سے نہ صرف زیرِ تعلیم بچوں کو نظریاتی اثرات سے پاک بہتر تعلیم دی جا سکے گی، بلکہ یہاں کام کر رہے ملازمین کو بھی بہتر روزگار ملنے کی امید ہے، جن سے اب تک محض چند سکوں کے عوض کام لیا جاتا تھا۔وادی میں ایسے درجنوں پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں، جہاں کی انتظامیہ اپنی من مانی کے مطابق نصاب، کتابیں، وردیاں اور فیسیں مقرر کرتی ہیں، اور بچوں کو اپنے مخصوص نظریات کے مطابق تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔جموں و کشمیر میں اب تک جتنی بھی عوامی حکومتیں آئی ہیں، ان سب کو ان اداروں کے معاملات کا بخوبی علم تھا، لیکن وہ سیاسی مصلحتوں کے تحت ان اداروں پر ہاتھ نہیں ڈال پاتی تھیں۔اب جبکہ حالات مکمل طور پر تبدیل ہو رہے ہیں اور مرکزی حکومت تمام زاویوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے صادر کر رہی ہے، تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہاں کے عوام کا مستقبل بہتر انداز میں سنورے گا۔ ہمارے بچے ملک کے دوسرے حصوں کے بچوں کے ساتھ مل کر ذہنی نشو و نما کے ایک نئے دور میں داخل ہوں گے۔ ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑیں گے، یوں امن اور خوشحالی ان کا مقدر بنے گی۔تاہم اس کے لیے حکمرانوں کو وقت پر فیصلے لینے ہوں گے، جس طرح ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ لے رہے ہیں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img