منگل, اگست ۵, ۲۰۲۵
25.8 C
Srinagar

اردو زبان و ادب کا مستقبل روشن ہے: ڈاکٹر شمس اقبال

سری نگر: کتابیں صرف علم کا ذریعہ نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کے تسلسل کا آئینہ ہوتی ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ سری نگر میں جاری چنار بک فیسٹول میں نوجوانوں، بچوں اور طلبا کی غیر معمولی دلچسپی نے ثابت کر دیا ہے کہ اردو زبان و ادب نہ صرف زندہ ہے بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔یہ باتیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال کی ہیں۔انہوں نے یو این آئی کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کہا’چنار بک فیسٹول میں عوامی جوش و خروش قابلِ دید ہے اور اردو کتابوں کی فروخت نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’تین دنوں میں قومی اردو کونسل کے اسٹالز سے سوا لاکھ سے زائد کتابیں فروخت ہوئی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مطالعہ کا ذوق آج بھی زندہ ہے۔‘

ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ ’اس فیسٹول کا سب سے مثبت پہلو نوجوانوں کی بھرپور شرکت ہے، یہ فیسٹول نہ صرف کتابوں کا میلہ ہے بلکہ علم، تہذیب اور زبان سے جڑنے کا ذریعہ بھی ہے۔ طلبا، ریسرچ اسکالرز اور عام قارئین جس جذبے سے اردو کتابیں خرید رہے ہیں، وہ خوش کن ہے۔‘

انہوں نے کہا ’علم کا حصول صرف جدید ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ کتابوں کے مطالعے سے بھی ممکن ہے، ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ جو پڑھے گا، وہی آگے بڑھے گا۔‘

کونسل نے امسال اردو زبان کے فروغ کے ساتھ ساتھ فیسٹول میں کشمیر کی معروف دستکاری کو متعارف کرانے اور فروغ دینے کے لئے ’پیپر ماشی‘ کے مختلف النوع چیزوں کے بھی سٹال قائم کئے ہیں۔

اس کے متعلق ڈاکٹر شمس اقبال کا کہنا ہے’ہمارا مقصد صرف زبان کی ترویج نہیں ہے بلکہ زبان سے جڑی ثقافت، ہنر، اور روایتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی ہمارا عزم ہے۔‘

انہوں نے کہا ’پیپر ماشی جیسی قدیم صنعتیں ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔ اگر ہم نے انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا تو یہ فنون ناپید ہوسکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ قومی اردو کونسل نے اب یہ بیڑا اٹھایا ہے کہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ مقامی ہنر، صنعت و دستکاری کو بھی فروغ دیا جائے تاکہ نوجوان صرف کتابوں تک محدود نہ رہیں بلکہ ہنر کی دنیا میں بھی آگے آئیں۔

موصوف ڈائریکٹر نے امید ظاہر کی کہ چنار بک فیسٹول کا یہ تجربہ دوسرے شہروں میں بھی کیا جائے گا اور قومی اردو کونسل ملک بھر میں اردو زبان کے تئیں بیداری مہم کو مزید تیز کرے گی۔

کشمیر میں اردو زبان و ادب کے ساتھ لوگوں کے والہانہ لگائو کو سراہتے انہوں نے کہا’وادی کشمیر میں اردو زبان سے محبت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کی کتابوں میں دلچسپی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کا مستقبل روشن ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہم اردو کو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تحریک سمجھتے ہیں، اور اسی نظریے کے تحت ہم اپنے پروگرامز کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔‘

ڈاکٹر شمس اقبال نے بتایا کہ اس فسیٹول کے دوران 7 تا 9 اگست تین روزہ ورکشاپ بعنوان ’تخلیقی تحریر اور ادبی صلاحیتوں کی ترقی برائے نوجوان نسل‘کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں وادی کے مختلف اسکولوں کے طلبا کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا ’یہ ہماری پہلی کوشش ہے کہ ہم اسکولی بچوں کو یہ سمجھائیں کہ ایک اچھی کتاب کیسے لکھی جاتی ہے، ہم انہیں تحریری اظہار، تخیل، پلاٹ سازی اور زبان کی خوبصورتی سے روشناس کرائیں گے تاکہ مستقبل میں وہ اچھے مصنف بن سکیں۔‘

موصوف ڈائریکٹر نے مزید کہا کہ نئی نسل ہی ملک کا مستقبل ہے اور اگر ان کی تخلیقی رہنمائی صحیح سمت میں کی جائے تو وہ نہ صرف زبان و ادب کی خدمت کر سکتے ہیں بلکہ قومی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے گفتگو کے آخر میں کہا ’ہمیں کتاب سے رشتہ جوڑنا ہے، کیونکہ کتاب صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ قوموں کی رہنمائی کا چراغ ہوتی ہے۔‘

Popular Categories

spot_imgspot_img