مانیٹرنگ ڈیسک
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمیں لگتا ہے کہ غزہ میں آئندہ ایک ہفتے کے اندر جنگ بندی ممکن ہے۔‘ تاہم، حماس کے خارجہ تعلقات کے عہدیدار اور اس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے بی بی سی کو ایک خصوصی بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ’فی الحال کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمیں لگتا ہے کہ غزہ میں آئندہ ایک ہفتے کے اندر جنگ بندی ممکن ہے۔‘
اوول آفس میں کانگو اور روانڈا کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کے دوران، ٹرمپ نے وضاحت کی کہ وہ سمجھتے ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی قریب ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میری اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے کچھ لوگوں سے بات ہوئی ہے۔‘
ٹرمپ نے ان افراد کے نام ظاہر نہیں کیے لیکن وہ ایک سے زیادہ مواقع پر اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ وہ ایران اور اسرائیل کی جنگ کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے ساتھ رابطے میں تھے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم اس علاقے میں بہت سارا پیسہ بھیج رہے ہیں اور کھانا اور امداد بھی بھیج رہے ہیں، ہم اس تنازع میں شامل نہیں ہیں، لیکن ہم ہیں بھی کیونکہ لوگ مر رہے ہیں۔‘
ٹرمپ نے بدھ کے روز بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف نے انھیں مطلع کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ’بہت قریب‘ ہے۔
تاہم، حماس کے خارجہ تعلقات کے عہدیدار اور اس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے بی بی سی کو ایک خصوصی بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ’فی الحال کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز نے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر رون ڈرمر پیر سے غزہ اور ایران کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کے حکام سے بات چیت کریں گے۔ ذرائع نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے وائٹ ہاؤس کے ممکنہ دورے کا بھی عندیہ دیا ہے تاہم کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔