وادی کشمیر، جو کبھی روحانیت، برداشت اور اخوت کی علامت سمجھی جاتی تھی، آج بدقسمتی سے ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں نوجوان ذہنوں میں تشدد پنپ رہا ہے۔ صوفیائے کرام، ریشیوں اور منیوں کی اس سرزمین پر جرائم کے گراف میں اضافہ محض ایک سادہ اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی بحران کی نشان دہی کرتا ہے۔گزشتہ چند برسوں کے دوران خودکشیوں، گھریلو تشدداور قتل جیسے جرائم کے ساتھ ساتھ اسکول اور کالج کے طالب علموں میں چھرا زنی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے والدین، اساتذہ، سماجی کارکنوں اور پالیسی سازوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔2024 میں ایسے متعدد واقعات نے عوامی ضمیر کو جھنجھوڑا اور2025 میں بھی ان واقعات میں تسلسل تشویش کو مزید بڑھا رہا ہے۔چھرا زنی جیسے پرتشدد واقعات دراصل ایک گہرے سماجی تنزل کی علامت ہیں۔ جب ایک کم عمر طالب علم کسی معمولی تنازعے کو چاقو نکال کر سلجھانے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ محض ایک” فزیکل ایکشن“ نہیں بلکہ نفسیاتی ،عدم برداشت ،بے راہ روی، جذباتی، غیر توازن اور معاشرتی ناکامی کا اظہار ہوتا ہے۔یہ سوال بجا ہے کہ کیا یہ سب عدم برداشت کا نتیجہ ہے؟ جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جزوی طور پر ہاں!۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکےا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور تشدد پر مبنی تفریحی مواد نے کم عمر ذہنوں کو برداشت، صبر اور مکالمے سے دور کر دیا ہے۔
والدین کی مصروفیت، اساتذہ کی بے بسی اور سماج کی عمومی غفلت نے نوجوانوں کو ایک ایسے خلاءمیں دھکیل دیا ہے جہاں وہ جذباتی دباو¿ سے نمٹنے کے لیے پرتشدد راستے اختیار کرنے لگے ہیں۔ایسے حالات میں والدین کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ محض بچوں کو اسکول بھیج دینا یا ان کے تعلیمی نتائج سے مطمئن ہو جانا کافی نہیں۔ والدین کو بچوں کے نفسیاتی اتار چڑھاو¿، دوستوں کے انتخاب، آن لائن سرگرمیوں اور رویوں پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔ اسی طرح اساتذہ کو بھی محض نصاب مکمل کرنے کے بجائے اخلاقی تعلیم، جذباتی ذہانت اور سماجی ہم آہنگی پر زور دینا ہوگا۔سماج کے ذی حس طبقے، بشمول علما، سماجی کارکنوں اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں سے براہ راست مکالمہ کریں، ان کے جذبات کو سمجھیں اور انہیں تشدد سے بچنے کے مثبت طریقے سکھائیں۔ دوسری طرف حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں کونسلنگ سسٹمز کو مضبوط کرے، ذہنی صحت کے مراکز قائم کرے اور اسکول و کالج کیمپس میں سخت حفاظتی اقدامات متعارف کرائے۔پولیس اور دیگر اداروں کو محض واقعات کے بعد کارروائی کرنے کے بجائے، اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ مربوط نظام قائم کرنا ہوگا، جہاں کسی بھی خطرناک رویے کی فوری نشاندہی ہو سکے۔ والدین، اساتذہ اور پولیس کے درمیان اعتماد سازی بھی ناگزیر ہے، تاکہ مسائل کا قبل از وقت تدارک کیا جا سکے۔
طالب علموں میں چھرا زنی کا بڑھتا رجحان ایک معمولی معاملہ نہیں، بلکہ یہ ہمارے تعلیمی، اخلاقی اور سماجی نظام کی ایک گہری خامی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر ہم نے آج اس کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا، تو آنے والے کل میں ہم ایک ایسے معاشرے کے شاہد ہوں گے، جہاں مکالمہ کی جگہ تکرار اور تربیت کی جگہ تشدد لے چکے ہوں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بیدار ہوں، مربوط ہوں اور نوجوان نسل کو محبت، مکالمہ اور رواداری کا درس دوبارہ دینا شروع کریں،اسی میں وادی کا مستقبل پوشیدہ ہے۔
