جمعہ, جون ۶, ۲۰۲۵
21.4 C
Srinagar

جدید ٹیکنالوجی اور وادی کے کسان۔۔۔۔۔۔۔

کشمیر، جو قدرتی حسن، جھیلوں اور پہاڑوں کے ساتھ ساتھ زرخیز زمینوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے، اس وقت زرعی انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہاں کی معیشت میں زراعت اور باغبانی کو ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل ہے، لیکن افسوس کہ وادی کے کسان برسہا برس سے موسمی تغیر، روایتی طریقوں اور محدود وسائل کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہیں جبکہ زرعی زمین بھی سکڑتی جارہی ہے۔ ایسے میں جب محکمہ زراعت نے ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے کھیتوں اور باغات میں اسپرے کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے، تو یہ ایک خوش آئند اور انقلابی قدم کے طور پر ابھرا ہے۔یہ سچ ہے کہ کشمیر کے کھیتوں میں جب ڈرون پہلی بار ا±ڑے تو وہ صرف مشینیں نہیں تھیں، بلکہ وہ ایک پیغام لے کر آئی تھیں ، پیغامِ تبدیلی، ترقی اور تحفظ کا۔ وہ ڈرون جو کبھی جنگ کے میدانوں میں تباہی کا استعارہ سمجھے جاتے تھے، آج کسانوں کے لیے آس و امید کے پر لگائے فضا میں پرواز کرتے ہیں۔ اب اسپرے زمین سے نہیں، آسمان سے ہوگا۔ یہ منظر نہ صرف تکنیکی ترقی کی جھلک پیش کرتا ہے بلکہ کشمیر کے زرعی مستقبل کے ایک نئے باب کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔
تاہم اس نئی پہل کی کامیابی صرف ٹیکنالوجی پر نہیں، بلکہ اس کے عام کسان تک رسائی پر بھی منحصر ہے۔ بیشتر کسان اس تبدیلی کو خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن اس کی لاگت ان کی استطاعت سے باہر ہے۔ بلاشبہ ڈرون وقت، محنت اور دوا کی بچت کرتا ہے، مگر فی الحال یہ سہولت صرف بڑے زمینداروں تک محدود ہے۔ اس خلا کو پ±ر کرنے کے لیے حکومت، محکمہ زراعت اور مرکزی اداروں کو سبسڈی، تربیت اور تکنیکی معاونت فراہم کرنا ہوگی۔ مقامی نوجوانوں کو ڈرون چلانے کی تربیت، سروس مراکز کا قیام اور کرایے یا آسان اقساط پر سہولت کی فراہمی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔کشمیر کے کسان ہر سال خشک سالی، بے وقت بارش،ژالہ باری اور برفباری جیسے خطرات سے دوچار رہتے ہیں، جس سے ان کی فصلیں تباہ اور آمدنی ختم ہو جاتی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی ان کے لیے ایک ایسا ہتھیار بن سکتی ہے جو کم وقت میں وسیع رقبے پر مو¿ثر اسپرے کر کے فصلوں کو بچا سکے۔ اس سے نہ صرف معاشی بلکہ سماجی بہتری کے امکانات بھی روشن ہوتے ہیں۔
اسی تناظر میں حکومت کا 24فروری 2023 کو’پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا‘( پی ایم ایف بی وائی) کو جموں و کشمیر کے تمام اضلاع تک پھیلانا ایک مثبت قدم ہے۔ اس اسکیم کا مقصد کسانوں کو موسمی خطرات سے انشورنس تحفظ فراہم کرنا اور جدید طریقے اپنانے کی ترغیب دینا ہے۔یہ ٹیکنالوجی وادی کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کر سکتی ہے۔ اگر حکومت ڈرون آپریٹرز کی تربیت، مرمت مراکز اور مقامی سروس اسٹیشنز قائم کرے تو ایک نیا تکنیکی ماحولیاتی نظام وجود میں آ سکتا ہے جو معیشت کو نئی جہت دے گا۔آخر میں، اگر چہ ڈرون محض ایک مشین ہے، مگر یہ کشمیر کے کسان کے لیے ایک ایسا خواب بن چکی ہے جو موسمی آفات کی گرد میں بھی روشن رہتا ہے۔ حکومت اگر اس خواب کو حقیقت بنانا چاہتی ہے تو اسے سبسڈی، تربیت اور مسلسل معاونت کے ستون فراہم کرنے ہوں گے، تاکہ یہ ٹیکنالوجی ہر کسان کی پہنچ میں ہو اور یہ خواب فضا میں تحلیل نہ ہو، بلکہ زمین پر ایک نئی حقیقت بن کر کھل سکے۔ لیکن اس خواب کی آبیاری تبھی ممکن ہے، جب ہم اپنی زرعی زمینوں، باغات اور زرخیز دھرتی کو بھی تحفظ دیں۔ صرف دعووں میں نہیں بلکہ قانون کی مضبوط عمل آوری کے ساتھ، کیونکہ اگر زمین ہی نہ بچی، تو ٹیکنالوجی کہاں ا±ترے گی؟

Popular Categories

spot_imgspot_img