ملک کے مختلف حصوں، بالخصوص شمالی بھارت میں اس وقت شدید گرمی کی لہر جاری ہے۔ درجہ حرارت مسلسل چالیس کے پار جا رہا ہے، اور ماحولیاتی ماہرین نے وارننگ دی ہے کہ آنے والے دنوں میں ہیٹ ویو مزید خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ اس صورتحال میں جموں وکشمیر کی حکومت نے وادی کشمیر میں اسکولوں کے اوقات کار میں معمولی سی تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ اب اسکول صبح ساڑھے8 بجے سے دوپہر دو بجے تک کھلے رہیں گے، جب کہ جمعہ کو چھٹی بارہ بجے دی جائے گی۔ پہلے یہ اوقات صبح8 بجے سے سہ پہر3 بجے تک تھے۔سوال یہ ہے کہ کیا آدھ گھنٹے کی یہ تبدیلی واقعی ہیٹ ویو سے بچاو¿ کا کوئی مو¿ثر حل ہے؟ کیا سورج کی تپش اس تیس منٹ کی رعایت سے کم ہو جائے گی؟ کیا بچوں کو تیز دھوپ میں، چلچلاتی گرمی میں اسکول آتے اور جاتے وقت جو مشکلات درپیش ہیں، وہ اس تبدیلی سے ختم ہو جائیں گی؟ ہرگز نہیں۔ یہ قدم ایک طرح کا رسمی اعلان محسوس ہوتا ہے ،جیسے عوامی دباو¿ میں کچھ نہ کچھ دکھانے کے لیے بس وقتی تسلی دے دی گئی ہو۔ یہ کسی سنجیدہ پالیسی کا نتیجہ نہیں لگتا، بلکہ بے دلی اور غیر سنجیدگی کا مظہر ہے۔گرمیوں کی شدت میں صرف اسکول بند کر دینا یا اوقات میں رد و بدل کرنا وقتی ریلیف تو ہو سکتا ہے، مگر یہ کسی مسئلے کا دیرپا حل نہیں۔ اصل مسئلہ ہمارے اسکولی نظام، بنیادی سہولیات اور تعلیمی ڈھانچے کی کمزوری میں پوشیدہ ہے۔
ہمارے سرکاری اسکول آج بھی اس حالت میں ہیں جہاں درختوں کا سایہ تو دور، کمروں میں پنکھے بھی اکثر خراب ہوتے ہیں یا پھر بجلی کی عدم دستیابی کے سبب چل ہی نہیں پاتے یا پھرگدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہی ہوتے ہیں۔ ٹھنڈے پانی کا کوئی انتظام نہیں اور اگر کہیں ہے بھی تو صفائی ستھرائی کا فقدان اسے استعمال کے قابل نہیں چھوڑتا۔ادھر نجی اسکول ہیں، جو بظاہر ہر سہولت کے دعویدار ہوتے ہیں۔ فیسوں کی مد میں ہزاروں، بلکہ بعض اوقات لاکھوں روپے والدین سے وصول کیے جاتے ہیں، لیکن ان اسکولوں کا معیار تعلیم اکثر ’نمائش‘تک محدود ہوتا ہے۔ غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر بچوں پر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ ان سرگرمیوں میں اکثر سیکھنے کے عناصر کم اور رسمی کارگزاری زیادہ ہوتی ہے۔ ہالز یا کلاس رومز میں تعمیری سرگرمیوں کی بجائے یا تو خاموشی سے وقت گزارا جاتا ہے یا ایسی’بکواس سرگرمیاں‘ کروائی جاتی ہیں جن کا نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، نہ اثر۔آج ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم موسم کی شدت سے زیادہ، تعلیم کی بے روحیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسکول علم کا مرکز ہونے کے بجائے، بچوں کے لیے زحمت بن گئے ہیں۔ نہ ان کے جسمانی آرام کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ ذہنی بالیدگی کا۔ اسکولوں میں بچوں کو ایسے کمروں میں بیٹھنا پڑتا ہے جہاں ہوا کا گزر نہیں، کھڑکیاں بند، پنکھے خراب اور کئی بار فرش پر بیٹھنے کی نوبت آ جاتی ہے۔
اگر حکومت واقعی بچوں کی صحت و سلامتی کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اسے صرف اوقات بدلنے کے بجائے اسکولی بنیادی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلی لانی ہوگی۔ ہر اسکول میں ٹھنڈے پانی، چھت پر عایق کاری ، وینٹیلیشن، اور ایمرجنسی فرسٹ ایڈ کی سہولیات لازمی ہونی چاہئیں۔ سرکاری اسکولوں میں درخت لگائے جائیں، کھلی جگہوں پر سایہ دار احاطے تعمیر کیے جائیں، اور کم از کم اتنا تو ہو کہ بچے گرمی یا سردی میں بیمار نہ پڑیں۔نجی اسکولوں کے لیے بھی سخت قواعد وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ موٹی فیسیں لینے والے اداروں سے سوال کیا جانا چاہیے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ماحول دوست سہولیات کیوں فراہم نہیں کرتے؟ ان کی غیر نصابی سرگرمیاں محض تصاویر کی زینت بننے کے بجائے عملی اور تربیتی کیوں نہیں ہوتیں؟ہمارے تعلیمی ادارے، چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، صرف ’نصاب کی تکمیل‘کو ہی تعلیم نہ سمجھیں۔ اصل تعلیم وہ ہے جو بچے کو جسمانی، ذہنی، سماجی، اور اخلاقی سطح پر سنوارے۔ اور اس کے لیے لازمی ہے کہ ہم اسکولوں کو ایک محفوظ، پرسکون، صاف ستھرا، اور باوقار ماحول دیں۔ ہمیں صرف اسکولوں کا وقت نہیں، اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم، صرف ڈگری اور نصاب کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل ماحول کا نام ہے اور اگر ہم اپنے بچوں کو اس ماحول سے محروم رکھیں گے، تو وہ کل نہ ہی گرمی سے بچ پائیں گے، نہ جہالت سے محفوظ رہ پائیں گے۔
