جموں و کشمیر میں منشیات کی وبا ایک خاموش تباہی کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو نہ صرف نوجوانوں کی زندگیوں کو نگل رہی ہے بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ یہ مسئلہ اب صرف ایک صحت کا بحران نہیں رہا، بلکہ ایک سماجی، اقتصادی اور سلامتی کا چیلنج بن چکا ہے۔جموں و کشمیر میں منشیات کے استعمال کی شرح میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، خطے میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً13.5 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف تشویشناک ہیں بلکہ ایک پوری نسل کے زوال کی نشاندہی کرتے ہیں۔جموں و کشمیر پولیس نے منشیات کے خلاف متعدد کارروائیاں کی ہیں۔2024 میں،1539 منشیات سے متعلق مقدمات درج کیے گئے اور2158 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ،188 منشیات فروشوں کی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ تاہم، ان اقدامات کے باوجود منشیات کی لعنت جوں کی توں برقرار ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششیں کافی نہیں ہیں۔
منشیات کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہمیں اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ پولیس، سول سوسائٹی، علما، والدین، اور تعلیمی اداروں کو مل کر اس وبا کے خلاف مو¿ثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنی نوجوان نسل کو اس تباہ کن لت سے بچا سکتے ہیں اور ایک محفوظ و خوشحال معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔منشیات کے خلاف جنگ میں سماجی اداروں، علما، والدین، تعلیمی اداروں، اور سرکاری محکموں کا کردار نہایت اہم اور فیصلہ کن ہے۔’منشیات سے پاک جموں و کشمیر‘مہم کے تحت مختلف اضلاع میں آگاہی پروگرامز، ورکشاپس، اور ریہیبلیٹیشن سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے تاکہ نوجوانوں میں منشیات کے مضر اثرات سے شعور بیدار کیا جا سکے۔ یہ کوششیں بے شک مثبت ہیں، لیکن ان کو مزید مو¿ثر بنانے کے لیے نہ صرف ادارے بلکہ ہر فرد کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔منشیات کا کاروبار محض ایک قانونی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک قومی سانحہ ہے جو ہماری نوجوان نسل کی صلاحیتوں، صحت اور مستقبل کو تباہ کر رہا ہے۔ اس ناسور کے پھیلاو¿ کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی موثر بنانا ہوگا تاکہ منشیات فروشوں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں، تاکہ وہ دوسروں کے لیے ایک وارننگ کا باعث بن سکیں۔
تاہم، صرف سخت سزائیں کافی نہیں ہیں۔ اس وبا سے نجات کے لیے ہمیں اجتماعی اور ہم آہنگ کوششوں کی ضرورت ہے۔ پولیس، سول سوسائٹی، علما کرام، والدین، اساتذہ اور تعلیمی ادارے مل کر منشیات کے خلاف آگاہی مہمات چلائیں، نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کریں اور ایسے ماحول کی تشکیل کریں جہاں کوئی بھی نوجوان منشیات کے شکنجے میں نہ آ سکے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی اور رہنمائی میں کوتاہی نہ کریں اور ان کی زندگیوں میں مثبت کردار ادا کریں۔اس کے علاوہ، منشیات سے متاثرہ افراد کی بحالی پر بھی خصوصی توجہ دی جانی چاہیے تاکہ وہ دوبارہ سے معاشرے کے قابل اور کارآمد فرد بن سکیں۔ منشیات کے خلاف جنگ ایک مکمل اور مربوط حکمت عملی کا تقاضہ کرتی ہے، جس میں ہر طبقہ فکر اور ہر فرد کی شمولیت ناگزیر ہے۔
