جب فطرت کی سانس اکھڑنے لگے، دریا سسکیاں لیں، پہاڑ خاموش احتجاج کریں اور فضا میں زہر گھل جائے، تب یہ صرف موسم کا مزاج نہیں بدلتا، بلکہ انسانیت کے طرزِ تعمیر و ترقی پر بھی سوال اٹھتا ہے۔سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ، جس میں ماحولیاتی کلیئرنس کے بعد از وقت (Facto-Post)تصور کو غیر قانونی قرار دیا گیا، اسی بدلتے مزاج کا ایک نیا رخ ہے، وہ رخ جو انسان کی بے لگام ترقی کو قانون کے دائرے میں واپس لانے کی ایک کوشش ہے۔ عدالت نے 2017کے اس نوٹیفکیشن اور 2021 کی ا±س یادداشت کو کالعدم قرار دیا ہے، جن کے تحت منصوبہ سازوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ پہلے تعمیر کریں اور بعد میں ماحولیاتی منظوری حاصل کریں۔ یہ گویا فطرت کے ساتھ ایک معاہدہ توڑنے کے مترادف تھا۔ماحولیاتی اثرات کے جائزے ( ای آئی اے) کے قوانین2006 میں اسی لیے بنائے گئے تھے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک روک تھام کا نظام ہو، جو یہ دیکھے کہ کہیں کسی پہاڑی کے سینے پر کھدائی، کسی جنگل کی سانسیں چھیننے کا موجب تو نہیں بن رہی، یا کسی دیہات کی فضاو¿ں میں آلودگی کا زہر تو نہیں گھولا جا رہا۔ مگر گزشتہ آٹھ برسوں میں ان اصولوں کو رفتہ رفتہ مصلحتوں کی نذر کر دیا گیا۔
عدالت کی زبان میں حکومت نے ’ماحول کو نقصان پہنچانے والوں کی حفاظت کے لیے غیر معمولی کوشش کی‘۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ عدالت نے مرکز کو ماحولیاتی قوانین میں نرمی پر سرزنش کی ہو۔2017 کے(Common Cause) کیس ہو یا2020 کا ایک مقدمہ۔ ہر بار عدالت نے یہ واضح کیا ہے کہ ماحولیاتی انصاف کو کاروباری آسانیوں پر قربان نہیں کیا جا سکتااور پھر، سب سے بڑا سوال وہی ہے جس کا جواب اب تک دھند میں چھپا رہا ہے: کیا ترقی اور پائیداری دو متضاد تصورات ہیں؟ کیا صنعتی ترقی صرف تبھی ممکن ہے جب دریا خشک ہوں، فضائیں زہریلی ہوں اور زمین شور زدہ؟ سپریم کورٹ نے اس روایت کو توڑتے ہوئے کہا ہے کہ’ماحول کا تحفظ اور اس کی بہتری ترقی کا لازمی جزو ہے‘۔
آج جب شہری ہند کا ہر سانس آلودگی کی چھاو¿ں میں ہے، جب ہر فصل کی جڑوں میں کیمیکل اور زمین کی پرتوں میں زہر اتارا جا رہا ہے، تو عدالت کا یہ فیصلہ صرف قانونی پیش رفت نہیں، بلکہ ایک اخلاقی و تمدنی بیداری کی علامت بھی ہے۔ یہ پیغام ہے ان پالیسی سازوں کے لیے جو ہر شجر کو ٹھیکے کی زبان میں ناپتے ہیں اور ہر ندّی کو صرف ایک سہولت سمجھتے ہیں۔یقیناً، یہ فیصلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدرت کا نظام محض ایک تکنیکی فائل نہیں جسے چاہا جائے تو پیچھے مورخہ ڈال کر منظور کیا جا سکے۔ یہ زندہ، سانس لیتا، ردعمل دیتا نظام ہے اور اگر ہم نے اب بھی نہ سنا، تو موسم کا مزاج صرف گرم نہیں ہوگا، بے رحم بھی ہو جائے گا۔
