پیر, اپریل ۲۸, ۲۰۲۵
22.8 C
Srinagar

کشمیری طلبہ کا تحفظ ناگزیر۔۔۔۔۔

پہلگام میں پیش آئے دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد جہاں پوری یو ٹی غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی ہے، وہیں ملک کے مختلف حصوں سے کشمیری طلبہ کے ساتھ ناروا سلوک کی اطلاعات تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔ اس واقعے کی آڑ میں بے قصور طلبہ کو ہراساں کرنا، زد و کوب کرنا اور ریاستیں چھوڑنے پر مجبور کرنا، ایک ایسی سنگین روش ہے جو نہ صرف ملک کی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ اس کی جمہوری روح کے بھی منافی ہے۔پہلگام کے سانحے پر جموں و کشمیر کے عوام نے یک زبان ہو کر مذمت کی، صدائے احتجاج بلند کی اور اس درندگی کو ناقابل قبول قرار دیا۔ مگر اب جب کہ واقعے کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، بعض شرپسند عناصر اس دکھ کو نفرت میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف عوام کے جذبات کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ ملک کی سالمیت اور سیکولر شناخت کے لیے بھی خطرہ ہے۔اب میڈیا رپورٹس سامنے آ رہی ہیں کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں کشمیری طلبہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور ا±نہیں ریاستیں چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کئی ایک ریاستوں میں کشمیری طلبہ کو زد و کوب کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ یہ خبریں نہ صرف ان طلبہ کے ذہنی و جسمانی تحفظ پر سوال اٹھاتی ہیں بلکہ ان کے تعلیمی مستقبل کو بھی اندیشوں میں ڈال دیتی ہیں۔ جموں و کشمیر طلبہ ایسوسی ایشن نے بھی کئی بیانات جاری کیے اور صورتحال کو تشویشناک قرار دیا۔ بیرون ریاستوں کشمیری نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ کشمیری بیرون ریاستوں میں تجارت بھی کر رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے جموں و کشمیر حکومت ان ریاستوں کی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہے جہاں سے کشمیری طلبا کو دھمکیاں دینے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا: ’میں ان ریاستوں میں اپنے ہم منصب وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بھی رابطے میں ہوں اور ان سے اضافی احتیاط برتنے کی درخواست کی ہے‘۔ وزیر اعلیٰ نے یہ باتیں جمعرات کو پارٹی ترجمان عمران نبی ڈار کے ایک پوسٹ کے رد عمل میں کیں جس میں انہوں نے کہا: ’متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے جا رہے ہیں جن میں کشمیری طلباءکو ملک بھر میں دھمکایا جا تا ہے، میں عمر عبداللہ صاحب سے مداخلت کرنے اور ملک بھر میں اپنے ہم منصبوں سے بات کرنے کی درخواست کرتا ہوں‘۔ عمر عبداللہ نے ’ایکس‘ پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا: ’جموں و کشمیر حکومت ان ریاستوں کی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہے جہاں سے یہ رپورٹیں آ رہی ہیں‘۔ انہوں نے کہا: ’میں ان ریاستوں میں اپنے ہم منصب وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بھی رابطے میں ہوں اور ان سے اضافی احتیاط برتنے کی درخواست کی ہے‘۔یہ قدم بروقت اور لائقِ ستائش ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکز اور تمام ریاستی حکومتیں ان معاملات کو رسمی سطح سے نکال کر عملی سطح پر حل کریں۔ کشمیری طلبہ کے لیے ایک محفوظ اور پرامن تعلیمی ماحول کی فراہمی نہ صرف ان کا حق ہے بلکہ ملک کے کثرت میں وحدت کے نظریے کی روح بھی یہی ہے۔
یہ قدم ناگزیر تھا، کیونکہ ماضی کے تلخ تجربات نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ کشمیری طلبہ، جو تعلیم یا روزگار کی تلاش میں جموں وکشمیر سے باہر ہوتے ہیں، ایسے کسی بھی واقعے کے بعد سب سے پہلے نشانے پر آتے ہیں۔طلبہ کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ انہیں خوف، دھمکی یا تعصب کا نشانہ بنانا دراصل مستقبل پر حملہ ہے۔ حکومتِ ہند جو بارہا ’کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت‘ کے اصولوں کی بات کرتی آئی ہے، اسے اب اس موقع پر اپنے الفاظ کو عمل میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری طلبہ کا تحفظ صرف اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ آئینی تقاضا بھی ہے۔یہ وقت نفرت یا انتقام کا نہیں، بلکہ اتحاد، تحمل اور انصاف کا ہے۔ ہمیں بطور ایک قوم یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم چند افراد کی درندگی کو اجتماعی شعور پر غالب نہیں آنے دیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف کشمیری طلبہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے بلکہ ملک میں امن اور بھائی چارے کے ماحول کو مستحکم کیا جائے۔ پہلگام سانحے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا بے حد ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے گناہوں کی حفاظت اور انہیں اعتماد دلانا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ملک کو اس نازک مرحلے پر اتحاد اور انصاف کی روشنی کی ضرورت ہے، تاکہ ظلم کی تاریکی مزید پھیل نہ سکے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img