منگل, اپریل ۲۲, ۲۰۲۵
22.6 C
Srinagar

قبل از وقت رہائی کی درخواست کو غلط طریقے سے نمٹانے کے لیے سپریم کورٹ نے دہلی حکومت کی تنقید کی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے دہلی حکومت پر اس کی طرف سے عمر قید کے مجرم کی مستقل معافی کی درخواست کو غلط طریقے سے نمٹانے پر آج سخت نکتہ چینی کی اور اس صورتحال کو "افسوسناک حالت” قرار دیا۔

جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجل بھویان پر مشتمل بنچ نے ریمارکس دیے کہ دہلی حکومت جس طرح سے قبل از وقت رہائی کی درخواستوں کو نمٹارہی ہے اس سے سنگین خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ عدالت نے نوٹ کیا ’’ اس معاملے میں دہلی حکومت کے ذریعہ عدالتی کارروائی کو کس انداز میں چلایا گیا اور جس طرح سے قبل از وقت رہائی کی درخواستیں کی جارہی ہیں، اس کے بارے میں شاید گہری تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘‘

قبل از وقت رہائی کے لیے مجرم کی درخواست پر ابتدائی طور پر سزا کا جائزہ لینے والے بورڈ ( ایس آر بی ) نے ستمبر 2024 میں غور کیا لیکن اسے موخر کر دیا گیا۔ 25 نومبر 2024 کو سپریم کورٹ نے ہدایت د ی کہ اس کیس پر 9 دسمبر سے پہلے دوبارہ غور کیا جائے۔

تاہم، 9 دسمبر کو عدالت کو بتایا گیا کہ ایس آر بی نے 8 دسمبر کو میٹنگ کی، لیکن اتفاق رائے تک پہنچنے میں وہ ناکام رہی۔

دہلی جیل کے قوانین کے ضابطہ 1257 ( بی ) کے مطابق متفقہ فیصلے کی عدم موجودگی میں اکثریت کا نظریہ غالب ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود میٹنگ کے منٹس اس بات کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے کہ اکثریت کی رائے کیا ہے۔

جب پوچھ گچھ کی گئی تو میٹنگ میں موجود دو افسران عدالت میں بھی یہ واضح کرنے سے قاصر رہے کہ آیا اکثریت نے قیدی کی رہائی کی حمایت کی یا مخالفت کی۔

عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ دہلی حکومت نے پہلے یقین دلایا تھا کہ 10 دسمبر کی میٹنگ میں اس کیس پر غور کیا جائے گا، جو ظاہر ہے کہ وعدے کے مطابق نہیں ہوا۔

اس کے بعد دہلی حکومت نے یکے بعد دیگرے دو میٹنگیں کیں اور بالآخر مجرم کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دیئے "ہم نے قبل از وقت رہائی کے معاملات سے نمٹنے میں دہلی حکومت کی طرف سے اتنی جلدی کبھی نہیں دیکھی۔”

ان تیز مشاہدات کا سامنا کرتے ہوئے ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ آدتیہ سوندھی نے حاضری دینے والے افسران کی ہدایات پر عدالت کو یقین دلایا کہ ایس آر بی کو ایک نئے فیصلے کے لیے فوری طور پر دوبارہ بلایا جائے گا۔

بنچ نے ریاست کو ہدایت دی کہ وہ اس میٹنگ کے نتائج کو 9 مئی 2025 تک ریکارڈ پر رکھے۔

یہ معاملہ اس وقت مزید بڑھ گیا جب 7 فروری 2025 کو دہلی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ایس آر بی کی سفارشات 2 فروری کو لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ تاہم، 7 مارچ کو عدالت نے جیلوں کے سپرنٹنڈنٹ کے حلف نامے کی بنیاد پر اسے جھوٹا پایا، جس نے تصدیق کی کہ دسمبر 10 کی میٹنگ میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

اس کے نتیجے میں عدالت نے دہلی کے محکمہ داخلہ کے سکریٹری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ توہین عدالت ایکٹ 1971 کے تحت کارروائی کیوں نہیں شروع کی جانی چاہئے۔

28 مارچ کو ہوم ڈپارٹمنٹ کے پرنسپل سکریٹری نے عرض کیا کہ لفٹیننٹ گورنر کو جو لیٹر بھیجا گیا تھا وہ سفارش نہیں بلکہ التوا کا نوٹ تھا۔ عدالت نے کہا کہ یہ گمراہ کن ہے اور توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کے بعد ہی ریاست نے عجلت میں درخواست کو مسترد کر دیا۔

15 اپریل کو عدالت نے پرنسپل سکریٹری اے ۔ انبراسو کی طرف سے داخل کرائے گئے حلف نامہ کو مسترد کر دیا، جس نے دعوی کیا کہ عدالت نے ایس آر بی کی 2 فروری کی "سفارش” کو غلط سمجھا۔

جسٹس اوکا نے سختی سے جواب دیا: "ہم پہلی بار قبل از وقت رہائی کے کیس سے نمٹنے والے بچے نہیں ہیں۔ ایک سفارش یا تو رہائی کی حمایت یا مخالفت کرتی ہے، نہ کہ فیصلے تک پہنچنے میں ناکامی”۔

حلف نامے کو "انتہائی قابل اعتراض” قرار دیتے ہوئے عدالت نے انبراسو کو 21 اپریل کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کی ہدایت دی

21 اپریل کی سماعت کے دوران بنچ نے بار بار ایس آر بی کے اندر اکثریت کی رائے پر وضاحت طلب کی۔

وہاں موجود افسران صرف اس بات کی تصدیق کر سکے کہ ایس آر بی کے چیئرمین دہلی کے وزیر داخلہ نے اس درخواست کی مخالفت کی تھی، لیکن بورڈ کے مجموعی موقف کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img