جموں و کشمیر کی شہ رگ کہلانے والی سرینگر۔جموں قومی شاہراہ ایک بار پھر قدرتی آفت کی زد میں آ گئی۔ تقریباً 300 کلومیٹر پر محیط اس مصروف ترین شاہراہ پر، ضلع رام بن وہ مقام بنا جہاں آسمان سے قہر برسا۔ پہاڑوں کا سینہ چیرتی ہوئی اس سڑک پر زندگی رک گئی، کئی انسانی جانیں چھن گئیں، بےشمار گاڑیاں ملبے تلے دب گئیں، اور لاکھوں کی املاک لمحوں میں تباہ ہو گئی۔رام بن، جو اس شاہراہ کا قلب کہلاتا ہے، کئی بار قدرت کے قہر کا سامنا کر چکا ہے۔ مگر اس بار کی تباہی نے نہ صرف مقامی باشندوں بلکہ شاہراہ پر روزگار کمانے والوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر وہ ڈرائیور حضرات جو دہاڑی پر دوسروں کی گاڑیاں چلاتے ہیں یا بینک قرضوں پر قسطوں میں گاڑیاں خرید چکے تھے۔ان کے لیے یہ آفت صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ روزگار کا اختتام بن کر آئی ہے۔
جموں و کشمیر کی یہ واحد قومی شاہراہ نہ صرف مقامی آمدورفت کا ذریعہ ہے بلکہ یہی وادی کشمیر کو ملک کی دیگر ریاستوں اور بیرونی دنیا سے جوڑنے والا سب سے اہم زمینی راستہ بھی ہے۔ ہر بار جب یہ شاہراہ بند ہوتی ہے، تو نہ صرف عام لوگوں کا سفر متاثر ہوتا ہے بلکہ وادی میں ضروری اشیائے خور و نوش، ادویات، اور پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل بھی تعطل کا شکار ہو جاتی ہے۔ صوبائی کمشنر کشمیر کے مطابق فی الحال وادی میں پیٹرولیم مصنوعات کا وافر ذخیرہ موجود ہے، تاہم ایسی بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے شاہراہ کی جلد بحالی ناگزیر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرمت اور صفائی کے کام جنگی بنیادوں پر انجام دیے جائیں تاکہ سپلائی چین میں کوئی بڑی رکاوٹ نہ آئے۔ اور اگر صورت حال مزید بگڑتی ہے، تو حکومت کو چاہیے کہ وادی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فضائی سروس کا انتظام کرے تاکہ بنیادی ضروریات کی ترسیل بلا تعطل جاری رہے اور عوام کو غیر یقینی کی کیفیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دوسری جانب حکومت نے متاثرین کی امداد کے اعلانات تو کیے ہیں، لیکن کیا ان مزدور پیشہ ڈرائیوروں کو بھی اس دائرے میں شامل کیا جائے گا؟ وہ جو نہ صرف مالی بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں بلکہ اب ان کے پاس روزی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں بچا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قومی معیشت کی رگوں میں رواں دواں خون کی مانند ہیں۔ ایسے میں انشورنس کمپنیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کلیمز میں تاخیر نہ کریں، تا کہ متاثرہ ڈرائیور اور مالکان جلد از جلد پھر سے سڑک پر لوٹ سکیں۔یہ سانحہ ایک بار پھر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ سرینگر۔جموں شاہراہ کو اگرچہ چار لین تک توسیع دی گئی ہے، لیکن یہ زیادہ تر علاقہ شدید پہاڑی سلسلوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ ایسے میں بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا ہم نے ترقی کے ساتھ ساتھ تحفظ کی ضمانت بھی لی؟ کیا ماحولیاتی تحفظ، درختوں کی کٹائی، نکاسی آب اور لینڈ سلائیڈنگ کے مستقل حل پر واقعی توجہ دی گئی؟اب وقت ہے کہ ہم صرف مرمت نہ کریں، بلکہ مکمل ازسرنو جائزہ لیں۔جہاں سڑک بنے، وہاں قدرت بھی محفوظ رہے۔ جہاں ترقی ہو، وہاں انسان بھی سلامت رہے اور جہاں آفت ہو، وہاں صرف آنسو نہ ہوں،بلکہ فوری اور حقیقی مدد ہو۔
