منگل, اپریل ۲۲, ۲۰۲۵
11.4 C
Srinagar

ٹنل کے آر پار آفت کا قہر۔۔۔۔

جموں و کشمیر کی قدرتی جغرافیہ جہاں حسن کا استعارہ ہے، وہیں اس کی کمزور ماحولیاتی ساخت اسے قدرتی آفات کے لیے بھی نہایت حساس بناتی ہے۔ حالیہ ژالہ باری، طوفانی ہوائیں، اور بے وقت بارشوں نے ثابت کر دیا کہ وادی کے عوام ہر لمحہ ایک نادیدہ خطرے کی زد میں ہیں۔ جواہر ٹنل، جو جموں اور وادی کشمیر کو جوڑتی ہے، اس کے دونوں طرف زندگی مختلف زاویوں سے اس آفت کی زد میں آئی۔ جنوبی کشمیر میں ژالہ باری نے کاشتکاروں کا سب کچھ چھین لیا، تو شمالی کشمیر کے کئی بالائی علاقوں میں بارشوں کے سبب زمین کھسکنے سے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ جموں کے ضلع رامبن اور ڈوڈہ میں کئی دیہات سڑکوں کی بندش اور مواصلاتی نظام کی ناکامی کے سبب تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے پوری ریاست ایک ہی وقت میں کئی محاذوں پر قدرت سے نبرد آزما ہے۔ نہ صرف کھیت اور مکان تباہ ہوئے بلکہ اعتماد بھی مجروح ہوا ہے—اعتماد اس نظام پر جو ہر بار وعدے تو کرتا ہے، مگر متاثرہ افراد تک بروقت اور مکمل مدد پہنچانے میں ناکام رہتا ہے۔
جنوبی کشمیر کی معیشت کا دار و مدار سیب اور دیگر میوہ جات کی پیداوار پر ہے۔ شوپیان کو ’کشمیر کا ایپل باو¿ل‘کہا جاتا ہے، جہاں کے سیب بین الاقوامی منڈیوں میں پسند کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس بار کی ژالہ باری نے محض شگوفے اور پھول ہی نہیں توڑے، بلکہ اس صنعت سے وابستہ لاکھوں افراد کی امیدوں کا خون بھی کر دیا۔ کولگام میں باغات کی شاخیں جھک کر زمین سے لگی نظر آئیں، پلوامہ میں زعفران کے کھیتوں میں پانی بھر گیا، اور اننت ناگ کے کسان ہاتھوں میں کمر جھکا کر بگڑتے موسم کو حسرت سے تک رہے ہیں۔یہ صرف کسانوں کی کہانی نہیں، یہ پورے خطے کی اقتصادی بنیادوں کی شکست و ریخت ہے۔ آڑھتی، لیبر، ٹرانسپورٹ، پیکنگ یونٹس، کولڈ اسٹوریج، اور کاروباری نظام سب کچھ اس ایک کڑی سے جڑا ہے۔ جب وہ کڑی ٹوٹتی ہے، تو پورا معاشی دھاگہ بکھر جاتا ہے۔اگر بروقت مالی امداد، قرض معافی، اور کسان بیمہ جیسے اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف یہ سیزن تباہ ہوگا بلکہ آئندہ کئی برس تک کسان اعتماد بحال نہیں کر پائیں گے۔
ہر آفت کے بعد دکھ بھرے چہروں کی تصاویر، سیاسی دورے، اور فوری امداد کے وعدے خبروں میں ضرور جگہ پاتے ہیں، مگر مسئلہ وہی کا وہی رہتا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمتِ عملی وقتی ہمدردی سے آگے نکلے۔ ہمیں اب ایک ایسا جامع ماحولیاتی فریم ورک درکار ہے جس میں ناگہانی آفات کے تدارک، پیشگی وارننگ سسٹم، مقامی آبادی کی تربیت، اور فصل بیمہ اسکیموں کو مرکزی اہمیت حاصل ہو۔محکمہ موسمیات کو مزید جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہوگا تاکہ وہ نہ صرف درست پیش گوئی کر سکیں بلکہ کسانوں کو مقامی زبان میں، بروقت مطلع کیا جا سکے۔ اسکول کی سطح سے قدرتی آفات سے بچاو¿ کی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ کسانوں کو صرف مرہم کی نہیں، تحفظ کی ضرورت ہے ،اور وہ تحفظ صرف پالیسیاں دے سکتی ہیں، وعدے نہیں۔اگر ہم نے اس وقت سیکھنے اور سنجیدہ اقدامات کرنے میں تاخیر کی، تو آنے والے برسوں میں یہ’ناگہانی آفات‘ایک مستقل بحران میں بدل سکتی ہیں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img