اتوار, اپریل ۲۰, ۲۰۲۵
9.9 C
Srinagar

عوامی خدمت یا ذاتی تجارت؟۔۔۔۔

سیاست انسانی تاریخ کا وہ باب ہے جو کبھی فکری بصیرت، اخلاقی جرات اور اجتماعی خیر کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ قائد، لیڈر یا رہنما کا تصور وہی تھا جو عوام کے دکھ سہے، ان کی آواز بنے، اور نظریات کی روشنی میں قوم کو سمت دے۔ مگر افسوس کہ عصرِ حاضر میں سیاست کا مفہوم بدلتا جا رہا ہے۔ اب یہ ایک ایسا پیشہ بن چکا ہے جس میں سرمایہ کاری کے عوض ذاتی استحکام، خاندانی تسلسل اور سماجی حیثیت کا سودا کیا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی محض حادثاتی نہیں، بلکہ سوچے سمجھے معاشرتی و سیاسی زوال کی علامت ہے۔ ایسے ماحول میں ”سیاست دان“ اور”لیڈر“ میں فرق کو سمجھنا محض علمی مشق نہیں، بلکہ جمہوری شعور کا تقاضا بن چکا ہے۔سیاست دان اور لیڈر میں بنیادی فرق یہی ہے کہ پہلا اقتدار کا متلاشی ہوتا ہے، دوسرا اقدار کا پاسبان۔ سیاست دان وعدوں، نعروں اور چمکدار مہمات کے ذریعے عوام کو لبھاتا ہے، جبکہ لیڈر اپنی سچائی، قربانی اور فکری دیانت سے دلوں کو فتح کرتا ہے۔ آج ہم ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا کی چکاچوند نے شخصیت کو نظریے پر غالب کر دیا ہے۔ نوجوان سیاست دان ’لیڈر‘کا لبادہ اوڑھے ضرور نظر آتے ہیں، مگر ان کی جدوجہد کا دائرہ ایک ٹویٹ یا انسٹاگرام کی پوسٹ سے آگے نہیں بڑھتا۔
جموں و کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ماضی قریب میں مرحوم شیخ محمد عبداللہ جیسے لیڈر ابھرے جنہوں نے عوام کی زبان، زمین اور شناخت کے لیے سیاسی اور ذاتی قربانیاں دیں۔ لیکن ان کے بعد ایک خلا سا پیدا ہوا ۔ نہ ایسی فکری قیادت ابھری، نہ ہی ایسا اخلاقی قد۔ آج سیاست کا زور خاندانوں کی وراثت پر ہے۔ کوئی بیٹا ہے تو کوئی بیٹی، جو بنا زمینی جدوجہد کے، پیراشوٹ کے ذریعے اقتدار کی گلی میں ا±تار دیے جاتے ہیں۔ لیڈر بننے کے لیے جیلیں، تنہائی، مشقت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ شاہ فیصل جیسے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے سیاست کو چھوا ضرور، مگر مشکل پڑنے پر کنارہ کشی اختیار کی۔ یہ ایک علامت ہے کہ ہم قیادت کے سنجیدہ بحران سے دوچار ہیں۔بدقسمتی سے آج کے جمہوری ڈھانچے میں تنقید کو بغاوت سمجھا جاتا ہے، اور مشورے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نوجوان قیادت جب خود کو ناقدین سے ماورا سمجھے، جب عوام کے مسائل کو جلسوں کے اسکرپٹ سے آگے نہ لے جا سکے، تو وہ قیادت محض نمائندگی بن کر رہ جاتی ہے۔ حقیقی رہنمائی نہیں۔
قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو قیادت اور نمائندگی میں فرق سمجھتی ہیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم نعرے پسند کریں گے یا نظریہ؟ ہمیں لیڈر چاہیے یا لیبل؟ ہمیں خاندانی وراثت پر یقین ہے یا عوامی جدوجہد پر؟ لیڈر بننے کے لیے محض سیاسی گراف یا میڈیا کی مقبولیت کافی نہیں ، بلکہ عوام کے ساتھ جینا، ان کے بیچ رہنا، اور ان کے لیے قربانی دینا شرطِ اول ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ ہم بطور عوام اپنی سیاسی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سوشل میڈیا کے نعروں کے بجائے زمینی حقائق دیکھیں۔ ہمیں ان چہروں کو پہچاننا ہو گا جو صرف الیکشن کے وقت نظر آتے ہیں، اور ان آوازوں کو تلاش کرنا ہو گا جو ہر وقت، ہر موسم میں ہمارے ساتھ کھڑی ہوں۔سیاست کو اگر پھر سے عزت کا مقام دلانا ہے، تو اسے خدمت کا ہنر بنانا ہوگا، تجارت نہیں۔اور قیادت کو اگر زندہ رکھنا ہے، تو ایسی نسل کو آگے لانا ہوگا جو عوام سے رشتہ رکھنے میں فخر محسوس کرے ۔ نہ کہ محلات میں بیٹھ کر ان پر حکم چلانے میں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img