ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
26.4 C
Srinagar

نوجوان، روزگار اور ذہنی مسائل۔۔۔۔

وادی کشمیر میں بہار کی ہوائیں چلتی ہیں، برف پگھلتی ہے، لیکن لاکھوں نوجوانوں کے دلوں پر جمی برف تاحال جمی ہوئی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو دن رات محنت کرتی ہے، تعلیم حاصل کرتی ہے، لیکن اس کے سامنے جب نوکری، استحکام اور مواقع کا دروازہ بند ملتا ہے، تو وہ یا تو خاموشی سے تنہائی کی کھائی میں گر جاتی ہے یا پھر وہ سخت قدم اٹھاتی ہے ،جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔یہ مسئلہ صرف بے روزگاری تک محدود نہیں۔ یہ ایک خاموش نفسیاتی بحران ہے، جو خود اعتمادی، خود شعوری، اور معاشرتی ربط کو کھا رہا ہے۔ ذہنی مسائل کا ذکر اب محض مغربی اصطلاح نہیں رہا۔ کشمیر کے اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، حتیٰ کہ گھروں میں نوجوان ڈپریشن،( انزائٹی) بے مقصدیت، اور احساسِ محرومی کا شکار ہو رہے ہیں۔جموں و کشمیر کے نوجوان صرف روزگار کے خواہاں نہیں، وہ انصاف، شفافیت، اور عزت نفس کے متلاشی بھی ہیں۔جب کسی ریکروٹمنٹ ایجنسی کا اشتہار آتا ہے، ہزاروں فارم بھرتے ہیں، فیسیں دی جاتی ہیں، مہینوں تیاری ہوتی ہے۔ لیکن پھر کوئی اسکینڈل، کوئی بے ضابطگی اور پھر ایک خاموشی۔ فہرستیں منسوخ، امتحانات کالعدم اور سارے خواب دھواں۔یہ بے ترتیبی نوجوانوں کو صرف روزگار سے نہیں محروم کرتی، بلکہ نظام پر سے ان کا اعتماد بھی ختم کرتی ہے۔ ایسے میں جب ان کے سامنے کوئی راستہ نہ ہو، تو وہ یا تو شدت پسندی، مجرمانہ رجحانات یا منشیات کی جانب چلے جاتے ہیں۔جموں وکشمیر پولیس اپنی کوششیں کر رہی ہے۔ آئے روز منشیات فروش گرفتار ہوتے ہیں، املاک ضبط ہوتی ہیں، لیکن منشیات کی لت کا پھیلاو¿ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ وجہ صرف طلب نہیں، بلکہ وہ تناو¿ ہے جو نوجوانوں کو ایک وقتی راحت کی تلاش میں دھکیل دیتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ خالی سرکاری اسامیوں پر ترجیحی بنیادوں پر شفاف اور فوری بھرتی عمل کو ممکن بنائے۔ ہر ریکروٹمنٹ میں آن لائن نظام، آزاد نگرانی، اور جواب دہی کے عناصر شامل کیے جائیں تاکہ نوجوانوں کو کم از کم یہ اعتماد ہو کہ محنت کا صلہ ضرور ملے گا۔صرف نوکری پر توجہ نہ دی جائے، بلکہ ہنر پر مبنی تعلیم، اسٹارٹ اپ کلچر، فری لانسنگ، ڈیجیٹل مارکیٹ اور لوکل بزنس کی سرپرستی کی جائے۔ کشمیر کے نوجوان صرف نوکری کے طالب نہیں، وہ ”کریئیٹرز، انوویٹرز اور انٹرپرینیورز“ بھی بن سکتے ہیں ۔ بشرطیکہ ان کے لیے ماحول پیدا کیا جائے۔منشیات کے خلاف مہم صرف گرفتاریوں تک محدود نہ رہے، بلکہ بحالی مراکز، سکولوں میں آگاہی پروگرام، مذہبی و سماجی رہنماو¿ں کی شرکت، اور والدین کی تربیت کا مربوط نظام قائم کیا جائے۔ ذہنی صحت کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ کشمیر میں مینٹل ہیلتھ کلینکس، موبائل کونسلنگ یونٹس، یونیورسٹیوں میں تھراپی سینٹرز قائم کیے جائیں۔ ہر ضلع میں ایسا ایک ادارہ ہونا چاہیے جہاں نوجوان بغیر کسی خوف یا شرمندگی کے مدد حاصل کر سکیں۔ نوجوانوں کو صرف سننے کے بہانے نہ دیے جائیں، بلکہ ان کی مشاورت، نمائندگی اور شرکت کو پالیسی سازی کا حصہ بنایا جائے۔ ان کے اندر کے غصے، بے چینی، اور خوابوں کو پلیٹ فارم دیا جائے۔
یہ سچ ہے کہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کا آج مایوسی سے بھرپور ہے، لیکن ان کے اندر وہ توانائی، وہ صلاحیت، اور وہ خواب اب بھی موجود ہیں جن سے وادی کا کل روشن ہو سکتا ہے۔ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حکومت، سماج، ادارے، اور خود نوجوان مل کر ایک نئی سوچ کو جنم دیں ۔ ایسی سوچ جو صرف نوکری سے نہیں، بلکہ خود انحصاری، ذہنی سکون، اور مقصد کے ساتھ جڑی ہو۔جموں و کشمیر کی خوبصورتی صرف پہاڑوں میں نہیں، یہاں کے نوجوانوں کی آنکھوں میں چھپے خواب بھی اتنے ہی حسین ہیں،بس اب ان خوابوں کو خواب نہ رہنے دیا جائے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img