آج ایک طرف جہاں دنیا کو عالمی تجارتی جنگ یعنی ایک نئی سرد جنگ کا سامنا ہے ،وہیں بعض ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں ،جن سے انسانیت کی روح تڑ پتی بھی ہے اور شرمسار بھی ہوجاتی ہے اور یہ واقعات یا مناظر اقوام عالم کے انسانیت ،امن وامان ،ترقی اور خوشحالی پر بد نما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔بی بی سی کی ایک تازہ ترین چشم کشا رپورٹ نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔23 مارچ کو غزہ میں ایک طبی قافلے پر اسرائیلی فوج کی جانب سے کی گئی فائرنگ کا تجزیہ، جو19منٹ کی ایک ویڈیو فوٹیج پر مبنی ہے، اس دعوے کو تقویت دیتا ہے کہ یہ فائرنگ نہ صرف جان بوجھ کر کی گئی بلکہ نہایت قریب سے کی گئی۔ بی بی سی ویریفائی کے ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ کچھ گولیاں صرف12 میٹر کے فاصلے سے چلائی گئیں، جب کہ قافلے میں شامل طبی کارکن ایمرجنسی لائٹس استعمال کر رہے تھے اور ان میں سے ایک نے چمکدار جیکٹ بھی پہن رکھی تھی۔اسرائیلی فوج نے ابتدائی طور پر قافلے کو مشکوک قرار دیا، لیکن بعد ازاں اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ قافلہ شناخت کے قابل تھا اور لائٹس بند نہیں تھیں۔جو ویڈیو منظر عام پر آئی ہے ،اس میں ایک رضاکار یا طبی کارکن نے زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے کہا’معاف کرنا ماں ،میں تو صرف مدد کرنا چاہتا تھا ‘۔یہ جملہ پوری دنیا اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ پھر بھی، کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ یہ اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ نہتے اور انسانی خدمت پر مامور افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ اور یہ سوال کہ ’کیوں؟‘ آج بھی جواب طلب ہے۔
یہ واقعہ صرف غزہ یا فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ اس پوری دنیا کے ضمیر کے لیے ایک چیلنج ہے۔ طبی عملے پر گولیاں چلانا، امدادی قافلوں کو نشانہ بنانا، اور نہتے افراد کو مار دینا۔یہ صرف انسانی حقوق کی نہیں، انسانیت کی توہین ہے۔جنگیں، چاہے کسی بھی فریق کی طرف سے ہوں، نہ صرف زندگیوں کو تباہ کرتی ہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کو تاریک کرتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے بل پر مسلط کردہ امن کبھی پائیدار نہیں ہوتا۔ تشدد وقتی طور پر خاموشی لا سکتا ہے، لیکن انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ یا خطہ پائیدار ترقی نہیں کر سکتا۔بندوقیں مسائل نہیں سلجھاتیں، بلکہ انھیں مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ آج اگر کسی ریاست یا گروہ کو اپنی طاقت پر ناز ہے، تو کل وہی طاقت کمزوروں کی آہوں میں بدل سکتی ہے۔یہ وقت ہے کہ عالمی برادری صرف بیان بازی سے آگے بڑھے۔ صرف مذمت کافی نہیں۔ جب اسپتال، اسکول، طبی قافلے اور بچے جنگ کا ایندھن بن جائیں تو یہ کسی ایک قوم یا خطے کا المیہ نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی شکست ہوتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ صورتحال میں فلسطین کے مسئلے پر عالمی ردعمل تیزی سے بدل رہا ہے۔ آج جس طرح سے دنیا بھر میں عوامی بیداری کا مشاہدہ ہو رہا ہے، وہ اس بات کی علامت ہے کہ مظلوم کی حمایت کا جذبہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج فرانس، ہالینڈ، جرمنی، اور حتیٰ کہ امریکہ جیسے ممالک میں بھی فلسطینی عوام کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں شرکت کرنے والے عوام کسی مذہبی یا لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کے اصولوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، مذہبی رہنما اور دنیا کی ہر بااختیار آواز کو اب متحرک ہونا ہوگا۔ امن کو صرف ایک نعرہ نہیں، ایک عملی ترجیح بنانا ہوگا۔ مکالمہ، مفاہمت اور احترامِ انسانیت،یہی وہ ستون ہیں جن پر پائیدار دنیا تعمیر کی جا سکتی ہے۔دنیا کو ایک فیصلہ کرنا ہے:کیا ہم مستقبل کو جنگوں کے حوالے کر دیں گے یا اسے مکالمے اور انصاف کی بنیاد پر تعمیر کریں گے؟کیونکہ صرف یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں تباہی سے نکال کر ترقی، بقا اور باوقار زندگی کی جانب لے جا سکتا ہے۔ہم تو بس اتنا ہی کہیں گے ’امن کو راستہ دو۔‘
