دنیا ایک غیر معمولی تبدیلی کے دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں معیشت اب محض بازاروں کی اتار چڑھاﺅ کی قیدی نہیں بلکہ عالمی سیاست کی سب سے بڑی مہرہ بن چکی ہے۔امریکہ کا حالیہ تجارتی رویہ، خاص طور پر چین پر عائد کردہ بے انتہا محصولات، محض ایک عام تجارتی حکمت ِ عملی نہیں بلکہ عالمی اثرورسوخ کی جنگ کا اعلان ہے۔ یہ معاشی طاقت کا ایسا اظہار ہے جس کے مضمرات پوری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک اس نئی معاشی جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے کھلاڑی بن چکے ہیں، جہاں ایک غلط فیصلہ پوری قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ایسے وقت میں عالمی معیشت کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو محض اپنی بقا کی جنگ نہ لڑے بلکہ ایک توازن قائم کرتے ہوئے مختلف عالمی قوتوں کے بیچ پل کا کردار ادا کرے۔ یہی وہ موقع ہے جہاں بھارت کی حیثیت محض ایک ابھرتی ہوئی طاقت سے بڑھ کر ایک فیصلہ کن عالمی کھلاڑی کے طور پر سامنے آتی ہے۔ بھارت اب محض جنوبی ایشیا کی حدود تک محدود نہیں بلکہ عالمی اقتصادی اور سفارتی میدان میں ایسا ستون بن چکا ہے جس کے بغیر عالمی پالیسیوں کا توازن ممکن نہیں۔ گزشتہ دہائی میں بھارت نے حیران کن رفتار سے اندرونی استحکام، ڈیجیٹل معیشت، اور بین الاقوامی سفارت کاری میں جو مقام حاصل کیا ہے، وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کو بھی جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے حالیہ بیانات میں اسی نئے عالمی منظرنامے کو اجاگر کیا ہے۔ وہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ بھارت اب اپنی پالیسیوں کے لیے کسی طاقت کے سامنے جوابدہ نہیں، بلکہ اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے خودمختار فیصلے کر رہا ہے۔ ان کے بقول،’بھارت اب اپنی خارجہ پالیسی میں دنیا کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی قیادت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے جو عالمی استحکام اور انصاف پر مبنی نظام کی بنیاد رکھ سکے۔‘ یہ وہی پختہ سوچ ہے جو بھارت کو محض ایک معیشت سے بڑھ کر ایک عالمی رہنما میں تبدیل کر رہی ہے۔بھارت نہ صرف جی۔20 کی صدارت کے ذریعے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو منوا چکا ہے، بلکہ گلوبل ساو¿تھ کے لیے ایک زوردار آواز بن چکا ہے۔ بھارت کی یہ پوزیشن صرف سفارتی سطح پر نہیں بلکہ اقتصادی اور دفاعی میدانوں میں بھی ظاہر ہو رہی ہے۔ اس وقت جب دنیا نئی سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، بھارت کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ مغرب اور مشرق کے درمیان ایک مفاہمتی پل بنے، ایک ایسا کردار ادا کرے جو واشنگٹن، برسلز، ماسکو اور بیجنگ سب کے ساتھ مو¿ثر گفتگو کر سکے۔
بھارت اور چین، جو آبادی، معاشی قوت، اور علاقائی اثرورسوخ کے اعتبار سے ایشیا کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں، اگر باہمی تعاون کے راستے پر چلیں تو نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک نیا معاشی اور سیاسی توازن قائم ہو سکتا ہے۔ جے شنکر کے حالیہ بیانات کہ’چین کے ساتھ تعلقات پہلے سے بہتر ہو چکے ہیں‘، ایک مثبت اشارہ ہے کہ دونوں طاقتیں اب عملی طور پر تصادم سے زیادہ تعاون کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ سرحدی معاملات پر سفارتی مذاکرات اور معاہدے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا ہو رہی ہے۔یہ وقت ہے کہ تلخیوں کو پس پشت ڈال کر، ایک مضبوط اور مربوط ایشیا کی تعمیر کی جائے جو عالمی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔ مسابقت کو دشمنی کی بجائے ترقی کا ذریعہ بنایا جائے اور قیادت کے خلا کو بھارت جیسے ممالک اپنی بصیرت اور تدبر سے پ±ر کریں۔ آج کی دنیا کو ایسی قیادت درکار ہے جو تنازعات کو بڑھانے کی بجائے سلجھانے میں کردار ادا کرے، جو قومی مفادات کو عالمی بھلائی کے ساتھ جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ بھارت کے پاس یہ صلاحیت بھی ہے اورموقع بھی ہے کہ وہ نئی عالمی ترتیب میں ایک اہم ستون کے طور پر ابھرے، اور دنیا کو ایک اور سرد جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرے۔