جمعرات, مئی ۲۲, ۲۰۲۵
26 C
Srinagar

عشقِ رسولﷺ ہی عشقِ خُدا ہے‎

 

ہلال لون

لامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:-

کی محمد ﷺ سے وفا تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس شعر  کی تشریح کرنے کے بعد ہمیں یوں سمجھ میں آتا ہے، جو شخص الله تعالیٰ کے حبیب ﷺ سے محبت کرتا ہے، وہی الله تعالٰی سے محبت کرتا ہے۔ جو الله تعالٰی سے محبت کرتا ہے اس کے تابع یہ ساری کائنات اور عرش جس پر سارے انسانوں کی تقریر لکھی ہوئی اور تخدیر لکھنے والا قلم اس کے تابع ہوجاتاہے۔ کیا یہ صحیح ہے لیکن ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ  بھی ذہنیت اور عشق میں کمال رکھتے تھے، تب ہی آپ رحمت اللہ نے اس شعر کو ارشاد کیا ہے۔ جب ہم اس شعر کی تشریح کرتے ہیں ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے وہ مولانا رومی کی فارصی شاعری کو پڑھ کر الله تعالٰی اور پیارے آقاﷺ کے عشق میں گہرائی تک پہنچے تھے۔ دوسری جگہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
بے خطر کُود پڑا آتشِ نمرُود میں عشق
عقل بھی  محوِ تماشا ئی اور لبِ بام
    اس شعر پر روشنی ڈالنے سے ہمیں پتہ چلتا رہے۔ کہ ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ عشق اور عقل کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعے کی مثال دے کر سمجھاتے ہیں کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو نمرود جو کہ ایک کافر بادشاہ تھا،اس نے ابراہیم علیہ السلام کو اسلام کی تبلیغ سے روکنے کے لئے آگ میں پھینکا تھا۔ آپ علیہ السلام پیغمبر تھے اپنے حقیقی رُب کو  آپ علیہ السّلام نے پہنچانا تھا۔ آپ علیہ السّلام پر الله تعالٰی کا خوف اور الله تعالٰی کی محبت غالب تھی ورنہ کوئی بھی انسانی عقل ایسی صورت میں آگ میں کودنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ علیہ السّلام کے عشق کا بھی یہ حال تھا کہ آگ بھی الله تعالٰی کے حکم سے ٹھنڈی ہوگی جو آپ علیہ السلام کو ایک بچے کی طرح گود می بٹھائی ہوئی تھی۔ لوگ جو تماشائی تھے بہت حیران ہوگئے۔ اُن کی عقلیں حیران ہوئی۔ اُن کے ہونٹوں سے حیرانگی کے الفاظ بے ساختہ نکلے۔ اس واقعے کے منظر سے بہت سے لوگ ایمان سے منور ہوگئے۔ آج بھی یہ منظرپڑھ کر ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے۔ نمرود بادشاہ جس پر نفسانیت یعنی اپنے اقتدار کی محبت اور تکبر غالب ہوئی تھی وہ پھر بھی اس منظر کو آنکھوں سے دیکھ کر بھی ایمان نہ لایا۔ حقیقت میں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کو پہچان گیا تھا۔ لیکن اس کے نفسانی خواہشات نے اُسے مجبور کیا کہ وہ منکر ہوگیا،کیونکہ وہ خدائی کا داوا کرتا تھا، اور سوچنے لگا اگر میں ابراہیم علیہ السّلام پر ایمان لاؤں لوگ میری عبادت نہیں کرینگے بلکہ ابراہیم علیہ السّلام کے رُب کی عبادت کرینگے۔ اس نفسایاتی مرض نے اُسے انکار کرنے پر مجبور کردیا اور اُس نے ابراہیم علیہ السّلام اور آپ علیہ السّلام کی اُمت کے خلاف جنگ کا عیلان کردیا۔الله تعالٰی نے ابراہیم علیہ السّلام کی مدد کے لئے مچھروں کا لشکر بھیج دیا اور ایک چھوٹے سے مچھر نمرود کے ناک میں پھنس کیا اور اُسی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے اور موت واقع ہوئی۔ اُس کے موت کے قریب کا وقت جب آیا کہ جو لوگ اُسے اپنا خُدا مانتے تھے وہی لوگ اُسے کے سر پر جوتےمارتے تھے جس سے اُسے تکلیف کم اور راحت محسوس ہوتی تھی۔
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے ایک شعر کی طرف اشارہ کریں گے۔
نہیں تیرا نشیمن کثرِ سلطانی کے گمبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
 ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اس شعر میں ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اے میرے ہم وطنوں، اے دینِ اسلام کے ماننے والے بھائیوں ، تم بادشاہت کی تمناؤں میں بادشاہوں کے کثر کی تمنائیں مت رکھو۔ یا بادشاہوں جیسے عیش وعشرت کے پیچھے مت چلو۔ بلکہ جس طرح ایک شاہین اپنا رزق ڈونڈنے کے لئے آسمانوں میں آزادانہ پرواز کرکے محنت کرکے اپنا رزق ڈھونڈتا ہے اُسی طرح تم بھی علم حاصل کرنے کے لئےکشمکش اور جستجو کرتے رہو کہ ہمیں چاہیے ہمیں چاہیے۔ شاہین کی طرح بہت محنت کرکے علم حاصل کرنا چاہے۔ علم کے لئے ہماری جستجو بھی ایسی ہی ہونی چاہیے۔
اس بات کو ہم اس طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔کہ جب ہم اپنے بزرگانِ دین کے زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ وہ سادگی سے ہی اپنی زندگی بسر کرتے تھے تو وہ ضروریت کے مطابق کسی خاموش جگہ کوئی چھوٹا گھر اور ساتھ ہی عبادت خانہ بناتے تھے۔ کسی مویشی جانور کو پالتے تھے کہ بھوک اور پیاس مٹاسکے۔ مال واسباب جمح کرنے کی کوئی خواہیش دل میں نہیں تھی، بلکہ ضرورت کے موقف اپنا گزر بسر کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں الله تعالٰی کی ذکر کرنے کے لئے وقت زیادہ ہی ملتا تھا، علم حاصل کرنے یا کسی ولی الله یا عالمِ دین کی اطاعت کے وقت ملتا تھا۔ خُدا کی یاد تنہائی میں اور قرآن مجید کے مطالعہ کرنا زندگی کا معمول بن گیا تھا۔اور وہ بل آخر کمال کو پہنچتے تھے۔
آخر ہم اس نتیجے کو پہنچتے ہیں کہ الله تعالٰی کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے پہلے اپنے رسول ﷺ کی محبت کو پانا ضروری ہے۔ رسول ﷺ سب سے زیادہ یعنی اپنے مال،اپنے اولاد،اپنے ماں باپ عزیز نہ ہو تب تک ہمارا ایمان مکمل نہیں۔جو ہمارے پیارے آقا ﷺ کے صحابہ اور ہمارے بزرگانِ دین نے ثابت کرکے دیکھایا۔ آج لوگ اُن کے نقشے قدم کو بھول گئے۔رسول ﷺ کی محبت کیسے ممکن ہے اس بات کی کہی مثالیں کتابوں میں درج ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ رسول ﷺ کے حکم پر اپنی جانیں نچھاور کرتے تھے۔ بہت سے صحابی رضی اللہ تعالی نے شادی ہوتے ہی اپنی بیویوں سے خواہشات کا موقع ہی نہیں ملا کہ رسول ﷺ کے حکم پر جہاد میں اپنی جانیں دے دی۔ ہمارے نبی ﷺ کے ساتھیوں نے زندگی کی ساری مال ودولت اپنے نبی ﷺ کے حکم پر قربان کر دی تب محبت رسول ﷺ حاصل ہوئی۔ یہ ادائیں الله تعالٰی کو بہت پسند آئی اور الله تعالٰی نے انہیں جنت کی بشارت دی۔
حضور ﷺ کے اِس دُنیا سے جانے کے بعد نبوت کا دروازہ بند گیا۔ اس کے بعد الله تعالٰی نے اپنے خاص بندوں کو چُنا اور انہوں نے الله تعالٰی اور رسول ﷺ کے احکامات کو صحیح صحیح سمجھ لیا اور اپنے رسول ﷺ کے سادگی طرزِ زندگی کو اپنایا۔ دُنیا سے دُور غاروں اور جنگلوں میں پناہ لی تاکہ گناہوں سے دور ہمیشہ الله تعالٰی کی یاد میں باقی زندگی گزاریں۔ وقت یوں آیا کہ الله تعالٰی نے انہیں اپنے ولیوں میں شامل کیا اور جب وہ اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ لوگ انِ بزرگوں کی طرف متاثر ہوکر مائل ہوگئے۔ آج بزرگوں کی محنت کی وجہ سے ہم مسلمان ہیں۔ وہ بزرگ الله تعالٰی کے برگزیدہ شخصیات میں ہیں۔ بزرگان دین کے مرتبے کو ہی ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا ہے
کی محمد ﷺ سے وفا ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

Popular Categories

spot_imgspot_img