جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
17.5 C
Srinagar

والدین اور بچوں کے درمیان بڑھتا ہوافاصلہ

مختار احمد قریشی

جدید دور میں والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے میں اضافہ ایک سنگین سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ تیز رفتار زندگی، ٹیکنالوجی کے بے تحاشا استعمال، اور روایتی خاندانی اقدار کی کمزوری نےوالدین اور اولاد کے درمیان ایک غیر محسوس دیوار کھڑی کر دی ہے۔ پہلے کے زمانے میں والدین بچوں کی زندگی کا مرکز ہوتے تھے، مگر آج کے دور میں موبائل فون، سوشل میڈیا، اور دیگر ڈیجیٹل مصروفیات نے بچوں کو والدین سے دور کر دیا ہے۔ والدین بھی اپنی مصروفیات،روزگار کی دوڑ، اور معاشی پریشانیوں میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ وہ بچوں کی جذباتی اورنفسیاتی ضروریات کو پورا نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً، والدین اور بچوں کے درمیان وہ محبت اور اعتمادکا رشتہ کمزور پڑ رہا ہے جو کبھی خاندان کی بنیاد سمجھا جاتا تھا۔
اس خلیج کی ایک بڑی وجہ والدین کی مصروفیت اور بچوں کی بدلتی ہوئی ترجیحات ہیں۔ آج کےبچے اپنی خوشیاں اور تسکین والدین کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے موبائل گیمز، سوشل میڈیا،اور آن لائن تفریح میں ڈھونڈتے ہیں۔ والدین بھی بعض اوقات بچوں کے مسائل کو سمجھنے کے بجائے انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے اپنی پریشانیوں اور احساسات کووالدین سے شیئر کرنے کے بجائے دوستوں یا اجنبی آن لائن کمیونٹیز میں پناہ لیتے ہیں۔ مزیدبرآں، کچھ والدین اپنی اولاد پر غیر ضروری دباو¿ ڈال کر انہیں تعلیم، کیریئر، یا سماجی توقعات کےبوجھ تلے دبا دیتے ہیں، جس سے بچے والدین سے مزید دور ہو جاتے ہیں۔ یوں، وہ جذباتی اورذہنی طور پر الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں والدین سے قربت مزید کم ہوجاتی ہے۔
اس بڑھتے ہوئے فاصلے کو کم کرنے کے لیے والدین کو بچوں کی زندگی میں زیادہ فعال کردار اداکرنا ہوگا۔ بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزارنا، ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینا، اور ان کیدلچسپیوں میں حصہ لینا اس خلا کو پ±ر کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی اثرات کو سمجھیں اور اپنے بچوں کو اعتدال میں رہ کر اس کا استعمال سکھائیں۔ اسی طرح، بچوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ والدین کی محبت بے غرض ہوتی ہے، اور ان کے تجربات اور نصیحتیں ہمیشہ ان کے فائدے کے لیے ہوتی ہیں۔ اگر دونوںطرف سے تعلقات میں کھراپن، محبت، اور اعتماد بحال ہو جائے تو والدین اور بچوں کے درمیانفاصلہ کم ہو سکتا ہے اور خاندان کا بندھن مضبوط ہو سکتا ہے۔
بچوں اور والدین کے درمیان بڑھتے فاصلے کی ایک اور بڑی وجہ روایتی خاندانی نظام کا زوال ہے۔ پہلے کے زمانے میں مشترکہ خاندانی نظام بچوں کو دادا، دادی، چچا، پھوپھی جیسے بزرگوںکی صحبت فراہم کرتا تھا، جو نہ صرف ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے بلکہ والدین اوربچوں کے درمیان ایک متوازن رشتہ بھی قائم رکھتے تھے۔ تاہم، آج کے دور میں نیوکلیئر فیملی سسٹم کے فروغ نے بچوں کو محدود ماحول میں پروان چڑھنے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں والدین کی مصروفیات انہیں بچوں سے مزید دور کر دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، بچوں کو وہ جذباتی سہارا اور رہنمائی نہیں مل پاتی جو انہیں ایک متوازن شخصیت بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اگر والدین خاندانی نظام کی اہمیت کو سمجھیں اور بچوں کو بزرگوں کے قریب رکھیں، تو اس خلا کو کسی حد تک پ±ر کیا جا سکتا ہے۔
بعض اوقات والدین اور بچوں کے درمیان بڑھتے فاصلے کی جڑیں والدین کے غیر لچکدار رویے میں بھی پائی جاتی ہیں۔ بہت سے والدین اپنی پرانی اقدار اور روایات کو اتنی سختی سے تھامے رکھتے ہیں کہ وہ نئی نسل کے خیالات اور نظریات کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ نتیجتاً، بچے خود کو والدین کے سامنے غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اپنی رائے کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے۔ یہ دباو¿ انہیں والدین سے مزید دور لے جاتا ہے اور وہ بیرونی دنیا میں اپنا جذباتی سہارا تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اگر والدین تھوڑا لچکدار رویہ اپنائیں، بچوں کی بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں، اور ان کی رائے کا احترام کریں، تو یہ فاصلہ کم ہو سکتا ہے اور گھر کا ماحول زیادہ خوشگوار بن سکتا ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف والدین کی کوششوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے جذبات اور قربانیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اکثر بچے یہ سوچتے ہیں کہ والدین انہیں محض کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، جبکہ حقیقت میں والدین کا ہر فیصلہ ان کے مستقبل کی بہتری کے لیے ہوتا ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیں اور اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ایک ساتھ خوشگوار لمحات گزاریں۔ کھانے کے وقت موبائل فون کا استعمال ترک کرنا، خاندان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنا، اور والدین کے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کرنا وہ اقدامات ہیں جو اس فاصلے کو کم کر سکتے ہیں۔ اگر والدین اور بچے ایک دوسرے کو سمجھنے کا جذبہ پیدا کریں، تو نہ صرف یہ خاندانی رشتہ مضبوط ہوگا بلکہ ایک خوشحال اور متوازن معاشرہ بھی تشکیل پا سکے گا۔
بچوں اور والدین کے درمیان بڑھتے فاصلے کی ایک اور بڑی وجہ روایتی خاندانی نظام کا زوال ہے۔ پہلے کے زمانے میں مشترکہ خاندانی نظام بچوں کو دادا، دادی، چچا، پھوپھی جیسے بزرگوں کی صحبت فراہم کرتا تھا، جو نہ صرف ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے بلکہ والدین اور بچوں کے درمیان ایک متوازن رشتہ بھی قائم رکھتے تھے۔ تاہم، آج کے دور میں نیوکلیئر فیملی سسٹم کے فروغ نے بچوں کو محدود ماحول میں پروان چڑھنے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں والدین کی مصروفیات انہیں بچوں سے مزید دور کر دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، بچوں کو وہ جذباتی سہارا اور رہنمائی نہیں مل پاتی جو انہیں ایک متوازن شخصیت بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اگروالدین خاندانی نظام کی اہمیت کو سمجھیں اور بچوں کو بزرگوں کے قریب رکھیں، تو اس خلا کوکسی حد تک پ±ر کیا جا سکتا ہے۔
بعض اوقات والدین اور بچوں کے درمیان بڑھتے فاصلے کی جڑیں والدین کے غیر لچکدار رویے میں بھی پائی جاتی ہیں۔ بہت سے والدین اپنی پرانی اقدار اور روایات کو اتنی سختی سے تھامے رکھتے ہیں کہ وہ نئی نسل کے خیالات اور نظریات کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ نتیجتاً، بچے خود کو والدین کے سامنے غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اپنی رائے کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے۔ یہ دباو¿ انہیں والدین سے مزید دور لے جاتا ہے اور وہ بیرونی دنیا میں اپنا جذباتی سہارا تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اگر والدین تھوڑا لچکدار رویہ اپنائیں، بچوں کی بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں، اور ان کی رائے کا احترام کریں، تو یہ فاصلہ کم ہو سکتا ہے اور گھر کا ماحول زیادہ خوشگوار بن سکتا ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف والدین کی کوششوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے جذبات اور قربانیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اکثر بچے یہ سوچتے ہیں کہ والدین انہیں محض کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، جبکہ حقیقت میں والدین کا ہر فیصلہ ان کے مستقبل کی بہتری کے لیے ہوتا ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیں اور اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ایک ساتھ خوشگوار لمحات گزاریں۔ کھانے کے وقت موبائل فون کا استعمال ترک کرنا، خاندان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنا، اور والدین کے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کرنا وہ اقدامات ہیں جو اس فاصلے کو کم کر سکتے ہیں۔ اگر والدین اور بچے ایک دوسرے کو سمجھنے کا جذبہ پیدا کریں، تو نہ صرف یہ خاندانی رشتہ مضبوط ہوگا بلکہ ایک خوشحال اور متوازن معاشرہ بھی تشکیل پا سکے گا۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img