رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آج سے شروع ہونے جا رہا ہے، اور اس حوالے سے مسلم برادری کے افراد نے تمام قسم کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ مساجد، خانقاہوں اور امام باڑوں کو سجایا گیا ہے تاکہ لوگ سکون کے ساتھ نماز پنجگانہ، تراویح اور دیگر عبادات ادا کر سکیں۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس مہینے میں ہر مسلمان، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرتا ہے، روزہ رکھتا ہے اور زکوٰة و خیرات بھی دیتا ہے۔ جہاں تک روزوں کی فضیلت کا تعلق ہے، اس کی کوئی حد نہیں۔ ایک حقیقی روزہ دار قیامت کے دن رب العزت سے جو چاہے ثواب مانگ سکتا ہے، یعنی اس میں بندے کی نیت اور اخلاص شامل ہے۔
ماضی میں یہاں کے لوگ اتنے خوشحال نہیں تھے کہ ہر گھر میں سحری و افطاری کے لیے کھانے کی سہولت میسر ہو، مگر آج ہر گھر میں طرح طرح کی نعمتیں دستیاب ہیں۔ لوگ خوب کھاتے پیتے ہیں۔ پھل، گوشت اور سبزیاں ہر گھر میں استعمال کی جاتی ہیں۔ غرض کہ مہنگائی کے اس دور میں بھی ہر مسلمان اس مقدس مہینے میں دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔جہاں تک روزوں کے فلسفے کا تعلق ہے، یہ ایک منفرد حقیقت رکھتا ہے۔ عام مسلمانوں کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ روزوں کی اصل روح کیا ہے۔ روزہ نہ صرف انسانی جسم کو پاک صاف کرتا ہے بلکہ انسان کو اپنے نفس پر قابو پانے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ سب کچھ دستیاب ہونے کے باوجود روزہ دار صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ بھی کھا پی نہیں سکتا۔ روزہ بنی نوع انسان کو تمام برائیوں سے دور رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔روزہ دار جھوٹ نہیں بول سکتا، غیبت نہیں کر سکتا، اور نفسانی خواہشات کو ترک کرکے صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ روزہ نہ صرف ایک بھوکے اور پیاسے انسان کو بھوک اور پیاس کا احساس دلاتا ہے بلکہ بندے کو حکمِ باری تعالیٰ کا پابند رہنے کی تربیت بھی دیتا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان مقدس ایام میں بعض لوگ مساجد اور خانقاہوں میں رات بھر لاو¿ڈ اسپیکر پر نعت خوانی اور قرآن خوانی کرتے ہیں اور لوگوں کو سحری کے لیے بار بار پکارتے ہیں۔ یہ سب وہ ثواب کی نیت سے کرتے ہیں، مگر شاید انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ وہ بہت سے ایسے افراد کو تکلیف بھی پہنچا رہے ہوتے ہیں جن پر روزہ فرض نہیں، جیسے بیمار، مسافر، شیر خوار بچوں کے والدین، اور معذور یا عذر میں مبتلا خواتین، لاو¿ڈ اسپیکر کے شور سے وہ ضرور پریشان ہوتی ہیں۔جہاں تک صدقات اور زکوٰةکی تقسیم کا تعلق ہے، اس کے لیے بھی اجتماعی کوششیں کرنی چاہئیں۔ کھانے پینے میں سادگی اپنانی چاہیے اور اپنے جسم و روح کو پاکیزہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ رشوت خوری، لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری اور نفرت و عداوت سے پاک معاشرے کی تشکیل میں یہ مقدس مہینہ ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔اگر مسلم معاشرے میں حقیقی تبدیلی مطلوب ہے تو لوگوں کو اجتماعی اور انفرادی سطح پر روزوں کی اصل حقیقت اور فضیلت سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے۔ علما اور ائمہ کرام اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر لوگوں کی صحیح رہنمائی کریں۔





