جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
17.5 C
Srinagar

میں حوا کی بیٹی ہوں

مختار احمد قریشی

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔

اسی کے  ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں ۔

میں حوا کی بیٹی ہوں، وہی بیٹی جسے دنیا کے ہر کونے میں مختلف ناموں، شناختوں، اور کرداروں میں دیکھا جاتا ہے۔ کبھی میں ایک بیٹی کے روپ میں محبت اور عزت کی مستحق ہوں، کبھی ایک ماں کے طور پر قربانی اور ایثار کی علامت، تو کبھی ایک بہن کی شکل میں وفاداری کا پیکر۔ لیکن اس کے باوجود، میں ہمیشہ آزمائشوں، چیلنجز، اور مشکلات کی بھٹی میں جلائی جاتی رہی ہوں۔ میں وہی حوا کی بیٹی ہوں جو ہر دور میں اپنی پہچان کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہے، جو ہر زمانے میں اپنے وجود کو ثابت کرنے کی جنگ لڑتی رہی ہے۔

میں کون ہوں؟

میں وہ بیٹی ہوں جو پیدا ہوتے ہی بعض سماجوں میں بوجھ سمجھی جاتی ہے۔

میں وہ بہن ہوں جس کے بھائی کو خاندان کی عزت سمجھا جاتا ہے۔

میں وہ بیوی ہوں جو محبت کے خواب لیے کسی کے گھر جاتی ہے، مگر اکثر جذباتی، ذہنی یا جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی ہوں۔

میں وہ ماں ہوں جو اپنی خوشیاں قربان کرکے اولاد کو سنوارتی ہے، مگر بعض اوقات بڑھاپے میں بے سہارا چھوڑ دی جاتی ہوں۔

میری آزمائشیں

1. پیدا ہوتے ہی بوجھ بن جانا

جب میں پیدا ہوتی ہوں تو کچھ گھروں میں خوشی منائی جاتی ہے، مگر کئی جگہوں پر میری آمد کو افسوس اور شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔ میں وہی حوا کی بیٹی ہوں، جسے بعض سماجوں میں وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا، تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے، اور کمزور سمجھا جاتا ہے۔

2. تعلیم اور ترقی میں رکاوٹیں

میں بھی وہی عقل، شعور اور صلاحیت رکھتی ہوں جو آدم کے بیٹے کو دی گئی ہے، مگر میری تعلیم پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، میرے خوابوں پر قدغن لگائی جاتی ہے۔ مجھے محدود کر دیا جاتا ہے کہ میں صرف گھر کی چار دیواری میں رہوں، میں اپنے خوابوں کو کیوں پورا نہیں کر سکتی؟

3. شادی، سماجی دباؤ اور قربانیوں کی زندگی

میں جب بڑی ہوتی ہوں تو مجھ پر شادی کا دباؤ ڈالا جاتا ہے، جیسے میری زندگی کا مقصد صرف کسی کے گھر کی زینت بننا ہو۔ میں کسی کے گھر جاتی ہوں تو وہاں بھی مجھ سے بے شمار قربانیوں کی توقع کی جاتی ہے۔ میں حوا کی وہی بیٹی ہوں جو ہر رشتہ نبھانے کے لیے اپنی ذات کو قربان کر دیتی ہے۔

4. ملازمت اور پیشہ ورانہ چیلنجز

اگر میں کام کرنا چاہوں، اپنے خواب پورے کرنا چاہوں، تو میرے راستے میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ کام کی جگہ پر مجھے صنفی امتیاز، ہراسانی، اور کم تنخواہ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں اگر خود مختار بنوں تو مجھے مغرور کہا جاتا ہے، اور اگر خاموش رہوں تو مجھے کمزور سمجھا جاتا ہے۔

5. ازدواجی زندگی کے چیلنجز

مجھے سکھایا جاتا ہے کہ شوہر کے ہر حکم کو بلاچون و چرا مانوں، خواہ میں خود تکلیف میں ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاؤں تو مجھے نافرمان کہا جاتا ہے۔ اگر شوہر ظلم کرے اور میں خاموش رہوں تو مظلوم، اور اگر میں بولوں تو بدزبان کہلاتی ہوں۔

6. ماں بننے کے بعد مزید قربانیاں

جب میں ماں بنتی ہوں تو میں اپنی ذات کو بھول کر اپنی اولاد کے لیے جیتی ہوں۔ میں اپنے آرام، اپنی خواہشات، حتیٰ کہ اپنی زندگی تک کو اپنی اولاد کے لیے قربان کر دیتی ہوں۔ مگر جب بڑھاپا آتا ہے تو اکثر مجھے بھلا دیا جاتا ہے، میری محبت کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔

میں صرف ایک جسم نہیں، میں ایک مکمل شخصیت ہوں

میں حوا کی بیٹی ہوں، میں کوئی کمزور مخلوق نہیں، میں اپنی ذات میں مکمل ہوں۔ میں صرف ایک جسم نہیں، ایک سوچ، ایک جذبہ، ایک طاقت ہوں۔ میں اپنی پہچان کی متلاشی نہیں، بلکہ میں اپنی پہچان خود بناتی ہوں۔ میں ہر روپ میں باوقار ہوں، چاہے میں بیٹی ہوں، بہن ہوں، بیوی ہوں یا ماں ہوں۔

مجھے بھی جینے کا حق چاہیے

مجھے بھی وہی حقوق ملنے چاہئیں جو آدم کے بیٹے کو ملتے ہیں۔

مجھے بھی عزت، محبت، اور وقار کے ساتھ جینے کا حق ہونا چاہیے۔

مجھے بھی اپنے خواب پورے کرنے، اپنی تعلیم حاصل کرنے، اور اپنی زندگی کو اپنے مطابق گزارنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

میں بھی فیصلہ کر سکتی ہوں، میں بھی سمجھ بوجھ رکھتی ہوں، اور میں بھی اپنی دنیا بدل سکتی ہوں۔

میں حوا کی بیٹی ہوں، میری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی

میری جدوجہد صدیوں پرانی ہے، لیکن میری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میں آج بھی اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہوں، اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہوں، اور اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے قدم بڑھا رہی ہوں۔ میں نے ہر دور میں خود کو منوایا ہے، اور میں آگے بھی ثابت کروں گی کہ میں کسی سے کم نہیں۔

میں مضبوط ہوں کیونکہ میں نے صبر سیکھا ہے

مجھے صبر سکھایا گیا، لیکن میں نے یہ بھی سیکھا کہ صبر کا مطلب ظلم سہنا نہیں۔ میں نے ظلم کے خلاف بولنا سیکھا، میں نے اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی ہمت پیدا کی۔ میں نے جانا کہ خاموشی ہمیشہ سنہری نہیں ہوتی، کبھی کبھار آواز اٹھانا بھی ضروری ہوتا ہے۔

میں محبت ہوں، مگر میں قربانی کا دوسرا نام نہیں

مجھے ہمیشہ محبت، ایثار، اور قربانی کی علامت سمجھا گیا، لیکن میں نے سیکھا کہ محبت میں بھی برابری ضروری ہے۔ میں صرف دینے کے لیے پیدا نہیں ہوئی، میں لینے کا بھی حق رکھتی ہوں۔ میں محبت کرتی ہوں، مگر میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ مجھے بھی محبت، عزت، اور احترام ملے۔

میں اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہوں

مجھے ہمیشہ بتایا گیا کہ میرے فیصلے خاندان، سماج، یا میرے مرد کریں گے، لیکن میں نے اب یہ جان لیا ہے کہ میرے فیصلے صرف میرے ہونے چاہئیں۔ میں اپنی زندگی کی مالک خود ہوں، میں اپنی تعلیم، کیریئر، اور زندگی کے ہر پہلو کا انتخاب خود کرنا چاہتی ہوں۔

میری ترقی صرف میری نہیں، پورے معاشرے کی ترقی ہے

جب ایک بیٹی پڑھتی ہے تو پورا خاندان ترقی کرتا ہے، جب ایک عورت آگے بڑھتی ہے تو پورا معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔ میں اپنی کامیابی کو صرف اپنی نہیں سمجھتی، یہ پوری نسل کی کامیابی ہے۔ اگر مجھے مواقع دیے جائیں، اگر مجھے اعتماد دیا جائے، تو میں دنیا کو بدل سکتی ہوں۔

میں خواب دیکھتی ہوں اور ان کو حقیقت بناتی ہوں

میں نے خواب دیکھنا سیکھا، اور اب میں ان خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے آگے بڑھ رہی ہوں۔ میں اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے لیے ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں نے تاریخ کے پنوں میں اپنی طاقت کے کئی ثبوت دیے ہیں، اور میں آگے بھی اپنی قابلیت کو ثابت کروں گی۔

میں حوا کی بیٹی ہوں، میں رکنے والی نہیں

میں حوا کی بیٹی ہوں، میں کسی بھی دیوار سے نہیں رکوں گی، کسی بھی زنجیر سے بندھی نہیں رہوں گی۔ میں ہر رکاوٹ کو پار کر کے اپنی منزل تک پہنچوں گی۔ میں ہر چیلنج کا سامنا کروں گی، کیونکہ میں کمزور نہیں ہوں، میں ایک طاقت ہوں، میں ایک انقلاب ہوں۔

میں حوا کی بیٹی ہوں، میری پہچان مجھ سے ہے، اور میں اپنی تقدیر خود لکھنے کا حق رکھتی ہوں۔

میری کہانی ابھی باقی ہے، میرے خواب ابھی مکمل نہیں ہوئے، میری پرواز ابھی جاری ہے کیونکہ میں حوا کی بیٹی ہوں۔

(کالم نگار مصنف ہیں اور پیشہ سےایک استاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے) 

Popular Categories

spot_imgspot_img