رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہونے والا ہے اور اس حوالے سے درست دنیا میں مسلم برادری شدومد سے تیاری کر رہی ہے کہ کس طرح اس مقدس اور احترام والے مہینے کے دوران روزہ رکھا جائے، کیا کھایا اور کیا پیا جائے۔ سحری اور افطاری کے وقت کون سی نعمتیں تیار رکھی جائیں۔ مساجد، خانقاہوں اور امام باڈوں کو سجایا جارہا ہے تاکہ ہر کوئی مسلمان، بڑا ہو یا چھوٹا، مرد ہو یا خواتین، بہتر ڈھنگ سے عبادت کرسکےںاور رب العالمین کی رضا و خوشنودی حاصل کر سکےں، کیونکہ ہر مسلمان کو یہ ایمان کامل ہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہاں انسان ایک مقررہ اور مختصر مدت کے لئے عارضی طور رہائش پذیر ہے، جوں ہی اس کا بلاوا آئے تو واپس اسی مٹی میں جانا ہے جس سے رب العالمین نے اس کی تخلیق کی ہے۔
جہاں تک رمضان المبارک کا تعلق ہے، یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں بنی نوع انسان کو اپنے آپ کا محاسبہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا گیا ہے کہ وہ دیکھے کہ انہوں نے اپنی گذشتہ برس کی زندگی کس حال میں گذاری ہے اور کن کاموں پر اپنا وقت اور پیسہ صرف کیا ہے۔ یعنی مسلمان کو ایک موقعہ فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ توبہ و استغفار کر کے ایک بہترین زندگی کی شروعات کریں۔ اپنی پ±رانی طرز زندگی کو ترک کر کے قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو جائے۔ جہاں تک حالات و مشاہدات کا تعلق ہے، مسلمان اس متبرک مہینے میں عبادات تو کرتا ہے لیکن جونہی رمضان المبارک اختتام کو پہنچتا ہے، وہ سب کچھ بھول کر پھر اسی پرانی ڈگر پر آ جاتا ہے۔ جھوٹ بولنا شروع کرتا ہے، حرام کھانا پسند کرتا ہے، ایک دوسرے کا حق مارنے کے پیچھے لگ جاتا ہے، نمازیں ترک کر دیتا ہے، خرید و فروخت میں بے ایمانی سے کام لیتا ہے، حد سے زیادہ نفع کمانے کی کوشش کرتا ہے، رشوت لینا شروع کر دیتا ہے۔ غرض مسلمان میں وہ تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی جس کے لئے رمضان کے مہینے کو فرض کیا گیا ہے۔ رمضان کا مہینہ اصل میں انسان کے اندرون اور بیرون کو تبدیل کرنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ انسان کے تزکیہ نفس کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔
جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے، یہاں پرانے ایام میں رمضان المبارک کے شروعات سے قبل استقبال رمضان کی زبردست تیاری کی جاتی تھی۔ بڑی بے صبری کے ساتھ ان ایام کا انتظار کیا جاتا تھا، انفرادی اور اجتماعی طور عبادت کرنے پر زور دیا جاتا تھا۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے سماجی سطح پر کام کیا جاتا تھا۔ محلہ کمیٹیاں زکواة و صدقات جمع کرکے غریبوں، یتیموں، کمزوروں، مسکینوں اور محتاجوں میں یہ رقم تقسیم کی جاتی تھی تاکہ وہ لوگ بھی اس مقدس اور متبرک مہینے میں بہتر ڈھنگ سے کھا پی سکیں اور عید کی خوشیوں میں وہ افراد بھی شامل ہو سکیں جو مالی اعتبار سے کمزور اور پسماندہ ہوتے تھے۔ لوگ نہایت ہی سادگی مگر ایمانداری سے زندگی گذارتے تھے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ رمضان کے احترام میں سارے ہوٹل اور ریسٹورنٹ بند ہوتے تھے، مسلمان تو کیا غیر مسلم لوگ بھی کھلے عام کھانے پینے سے پرہیز کرتے تھے۔ آج سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے جب کہ یہاں غیر مسلموں کی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی ہے۔ بہر حال، آج جو صورت حال ہمارے سامنے ہے، ا±س سے سبھی لوگ بخوبی واقف ہیں۔ ہماری وادی میں پندرہ لاکھ کے قریب لوگ منشیات کے عادی ہو چکے ہیں، شراب، چرس، آفین اور گانجہ کے علاوہ بچے بوٹ پالیش اور نشیلی ادویات کا استعمال کر رہے ہیں۔ بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ اس کاروبار میں مسلم برادری کے لوگ زیادہ تر شامل ہیں۔ گذشتہ برس کے دوران جن افراد کو اس حوالے سے گرفتار کیا گیا ہے یا جن کی جائدادیں ضبط کی گئی ہیں، وہ سب کشمیری مسلمان ہیں۔ غرض وادی کا مسلمان دنیا پرست بن چکا ہے، وہ دنیا میں عیش و آرام کرنے کے لئے حرام اور غلط طریقوں سے مال کمانے میں لگا ہے، جب کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے یہ سب کل کی تاریخ میں خاک میں مل جائے گا اور پھر انسان کو افسوس اور پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ رمضان المبارک ان لوگوں کے لئے ایک بہترین موقعہ فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبدیل کر سکیں اور دنیا و آخرت میں سرخ رو ہو کر خوشحال زندگی کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں اور معاشرے کو بھی بہتر بنانے کی سعی کریں۔ آو¿ عہد کریں کہ ہم اس مقدس مہینے میں اپنے آپ کو تبدیل کریں۔





