بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
8.1 C
Srinagar

ماں کی گود سے معاشرے کی تعمیر تک، عورت کی تربیتی ذمہ داریاں۔

مختار احمد قریشی۔

یہ عنوان عورت کے اس بنیادی اور عظیم الشان کردار کی عکاسی کرتا ہے جو وہ نسلوں کی تربیت میں ادا کرتی ہے۔ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے، جہاں سے اس کی شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ ایک ماں کی محبت، شفقت، اور فہم و فراست بچے کے ابتدائی سالوں میں اسے نیکی، اخلاقیات، اور بنیادی اصولوں سے روشناس کراتی ہے۔ یہی ابتدائی تربیت مستقبل کے ایک باشعور، بااخلاق اور ذمہ دار فرد کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر ایک ماں اپنے بچے کو سچائی، محنت، اور صبر سکھا دے تو وہ بچہ زندگی میں بڑے سے بڑے چیلنجز کا سامنا کر سکتا ہے۔ ایک نیک اور مدبر ماں معاشرے کے لیے ایک صالح انسان تیار کرتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف خاندان بلکہ پورے سماج پر پڑتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے، ان کی بنیاد ایک مضبوط اور تربیت یافتہ نسل نے رکھی، جس کے پیچھے ماؤں کی انتھک محنت شامل تھی۔

عورت کی تربیتی ذمہ داریاں صرف ماں بننے کے بعد شروع نہیں ہوتیں بلکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ بہن کے روپ میں بھائی کو اخلاقیات سکھاتی ہے، بیوی کے طور پر شوہر کو نیکی کی راہ پر چلنے میں مدد دیتی ہے، اور بیٹی کے طور پر اپنے والدین کے لیے فخر کا باعث بنتی ہے۔ اگر ایک عورت باشعور، تعلیم یافتہ، اور بااخلاق ہو تو وہ پورے خاندان کو ایک متوازن اور خوشحال زندگی گزارنے کے اصول سکھا سکتی ہے۔ گھر میں موجود عورت کی تربیت صرف بچوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ پورے خاندان کی سوچ اور عادات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جہاں ایک نیک عورت نے نسلوں کو عظیم بنا دیا۔ حضرت فاطمہؓ، حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ جیسی شخصیات عورت کے تربیتی کردار کی بہترین مثالیں ہیں، جنہوں نے نہ صرف اپنے گھروں کو سنوارا بلکہ پورے عالم اسلام کو روشنی عطا کی۔

معاشرتی ترقی میں عورت کی تربیتی ذمہ داری کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک باشعور ماں، ایک علم دوست بہن، اور ایک مدبر بیوی خاندان میں عدل، محبت، اور قربانی کا جذبہ پیدا کر سکتی ہے، جو کسی بھی کامیاب اور مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔ اگر عورت اپنی تربیتی صلاحیتوں کو پہچانے اور اسے مثبت انداز میں بروئے کار لائے تو وہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ پوری قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ آج کے جدید دور میں جہاں بچوں پر سوشل میڈیا، ٹیکنالوجی اور مغربی ثقافت کے شدید اثرات ہیں، وہاں عورت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی نسل کو دینی، اخلاقی، اور سماجی اقدار سے روشناس کرائے۔ اگر ایک ماں اپنے بچوں کو اچھے برے کی پہچان سکھا دے، انہیں محنت اور ایمانداری کی تعلیم دے، تو وہ آنے والے وقت میں ایک مضبوط اور خوددار قوم کے معمار بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ایک اچھی ماں تیار کر لیں، تو آپ ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

 

عورت کی تربیتی ذمہ داریاں نہ صرف خاندان بلکہ معاشرتی اور قومی سطح پر بھی بے حد اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک اچھی ماں اور بہن جس طرح گھر کے ماحول کو سنوارتی ہے، اسی طرح ایک استاد، ایک دانشور، یا ایک سماجی کارکن کے طور پر عورت پورے معاشرے کی فکری اور اخلاقی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر خواتین اپنی تعلیم اور تجربات کو نسلوں کی اصلاح کے لیے بروئے کار لائیں تو وہ نئی نسل کو علمی اور فکری اعتبار سے مضبوط بنا سکتی ہیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی اس کی نئی نسل پر منحصر ہوتی ہے، اور اگر وہ نسل عمدہ تربیت یافتہ ہو تو پورا سماج امن، محبت، اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے وہ معاشرے جو خواتین کو تعلیم اور تربیت کے مواقع فراہم کرتے ہیں، وہ زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ نظر آتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت کی تربیت کا اثر صرف خاندان پر نہیں بلکہ ایک وسیع سماجی دائرے میں محسوس کیا جاتا ہے۔ اگر ایک عورت پڑھی لکھی ہو، باشعور ہو، اور دینی و اخلاقی اصولوں پر کاربند ہو تو وہ ایک ایسی نسل تیار کر سکتی ہے جو نہ صرف معاشرتی اصولوں کی پاسداری کرے بلکہ دنیا کے سامنے ایک بہترین مثال بنے۔ اس کے برعکس، اگر عورت اپنی تربیتی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائے یا اسے غیر ضروری سمجھنے لگے تو سماج میں اخلاقی اور سماجی بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کے تعلیمی اور تربیتی کردار پر خصوصی زور دیا ہے اور اسے نسلوں کی پرورش کے لیے ایک اہم ستون قرار دیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں جتنے بھی عظیم لوگ گزرے ہیں، ان کی کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی ماں، بہن، یا بیوی کا تربیتی کردار ضرور رہا ہے۔

آج کے دور میں، جہاں ٹیکنالوجی، مغربی ثقافت، اور جدید رجحانات نے خاندانی نظام پر گہرے اثرات ڈالے ہیں، وہاں عورت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان کو ان چیلنجز کے مقابلے کے لیے تیار کرے۔ انہیں دینی، اخلاقی، اور سائنسی علوم سے روشناس کرائے، تاکہ وہ دنیا میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب اور اقدار کی حفاظت بھی کر سکیں۔ عورت اگر اپنی طاقت کو پہچان لے، اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کی فلاح کے لیے استعمال کرے، اور تربیتی ذمہ داریوں کو ایک مشن کے طور پر لے تو وہ ایک ایسی نسل کو پروان چڑھا سکتی ہے جو دنیا میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے: "تم مجھے ایک اچھی ماں دو، میں تمہیں ایک بہترین قوم دوں گا۔”

عورت کی تربیتی ذمہ داریوں کا دائرہ صرف بچوں اور خاندان تک محدود نہیں بلکہ معاشرتی اور قومی ترقی میں بھی وہ ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر ایک عورت باشعور ہو، تعلیم یافتہ ہو اور اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کار لائے تو وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک اچھی ماں کی گود میں پلنے والا بچہ اگر بہترین اخلاق اور کردار کا حامل ہو تو وہ آگے چل کر ایک نیک، دیانت دار اور باہمت فرد کے طور پر ابھر سکتا ہے، جو نہ صرف اپنے گھرانے بلکہ پوری قوم کے لیے باعث فخر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں خواتین کی تعلیم، آگاہی اور تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ آنے والی نسل کو ایک روشن اور بہتر مستقبل فراہم کر سکیں۔

تربیت کے میدان میں عورت کا کردار صرف الفاظ یا نصیحتوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا طرزِ زندگی، اس کے فیصلے، اس کی سوچ، اور اس کا رویہ بچوں اور معاشرے پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر ایک عورت خود ایماندار، محنتی اور باوقار ہو تو اس کی اولاد بھی انہی اصولوں پر پروان چڑھے گی۔ وہ اپنے بچوں کو صبر، حوصلہ، دیانت داری، اور خلوص جیسے اوصاف سکھا سکتی ہے، جو ایک مثالی معاشرے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر ماں ہی بےصبری، جھوٹ، اور بے اصولی کا مظاہرہ کرے تو اس کی تربیت کا اثر پورے خاندان پر منفی طور پر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کی تربیت کو صرف نصاب تک محدود نہیں رکھا جا سکتا بلکہ اس کے عمل اور کردار میں بھی بہترین تربیتی اصولوں کا ہونا لازمی ہے۔

آج کے دور میں، جہاں اخلاقی اور سماجی بحران شدت اختیار کر چکے ہیں، عورت کو مزید ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ اسے بچوں کو صرف نصابی تعلیم ہی نہیں بلکہ اخلاقی اقدار، دینی شعور اور عملی زندگی کے اصول بھی سکھانے ہوں گے تاکہ وہ آنے والے چیلنجز کا سامنا کر سکیں۔ ایک عورت اگر ماں کی حیثیت سے اپنے بچوں کو محبت اور نرمی سے بہترین اصول سکھائے، بہن کے طور پر بھائی کی رہنمائی کرے، بیوی کی حیثیت سے شوہر کے فیصلوں میں دانائی سے مدد کرے، اور بیٹی کے طور پر والدین کی عزت کا سبب بنے تو وہ ایک ایسا خاندان تشکیل دے سکتی ہے جو معاشرتی اصلاح میں اہم کردار ادا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی دانشور نے کہا تھا: "اگر آپ ایک مرد کو تعلیم دیں تو آپ ایک فرد کو تعلیم دیتے ہیں، لیکن اگر آپ ایک عورت کو تعلیم دیں تو آپ پوری نسل کو تعلیم دیتے ہیں۔”

(کالم نگار مصنف ہیں اور پیشہ سےایک استاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے) 

Popular Categories

spot_imgspot_img