بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
6.9 C
Srinagar

مادری زبان کا تحفظ۔۔۔۔

دنیا بھر میں مادری زبان کا عالمی دن کل یعنی 21 فروری کو نہایت ہی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا اور اس حوالے سے جموں و کشمیر میں بھی سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات کا اہتمام کیا گیا، جن میں ماہرین ادب و زبان نے مادری زبان کو فروغ دینے اور اسے زندہ رکھنے کے لئے مقالات پیش کیے اور نئی نسل کو دیگر عالمی زبانوں کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کو بولنے اور اسے محفوظ رکھنے کے لئے ترکیبیں بتائیں۔ بھارت ایک ایشیائی ملک ہے جہاں درجنوں زبانیں الگ الگ خطوں اور علاقوں میں بولی جاتی ہیں لیکن پھر بھی لوگ زیادہ تر ہندی اور انگریزی کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان دونوں زبانوں کو سرکاری سطح پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے، یہاں بھی ہر خطے میں لوگ اپنی مادری زبان بولتے ہیں اور اس کے باوجود ہر فرد انگریزی زبان سیکھنے اور بولنے کو پہلی ترجیح دیتا ہے کیونکہ انگریزوں نے اپنی زبان کو پوری دنیا میں مقبول بنانے کے لئے کافی محنت کی ہے اور اس زبان کا ادب گھروں تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی مادری زبان میں ہی بہتر ڈھنگ سے بات سمجھ سکتا ہے اور دوسروں کو سمجھا سکتا ہے۔ اصل میں مادری زبان کو فروغ دینے اور اس دن کو عالمی سطح پر منانے کے پیچھے بہت سارے اغراض و مقاصد کارفرما ہیں۔1999 میں یونسکو نے اس دن کو منانے کے لئے اقوام متحدہ میں ایک فیصلہ لیا تاکہ اس کی بدولت پوری دنیا کے لوگوں کو ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن، زبان و ثقافت سیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل سکے اور عالمی سطح پر ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔ بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ ہماری وادی میں لوگوں نے اپنی مادری زبان کے ساتھ بے حد ناانصافی کی ہے۔ لوگوں نے اس زبان کو یہ سوچ کر بولنا اور سیکھنا چھوڑ دیا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ اس زبان میں بات کرنے سے ان کا قد کم ہو جائے گا اور انہیں کمزور تصور کیا جائے گا۔ آج ہمارے بچے اپنے والدین سے مادری زبان کے بجائے انگریزی اور اردو میں بات کرنا سیکھتے ہیں کیونکہ اسکولوں میں اساتذہ صاحبان ا±ن بچوں کو ایڈمیشن کرتے وقت انگریزی اور اردو میں سوالات پوچھتے ہیں۔ بچہ چاہے کتنا بھی ذہین اور تیز دماغ کیوں نہ ہو، پھر بھی ا±سے کشمیری میں بات کرنے پر کمزور سمجھا جاتا ہے، جو کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے۔
جب معاشرے میں اس طرح کے سوچ کے اساتذہ ہوں تو قوم کہاں اپنی پہچان اور شناخت قائم رکھ سکتی ہے؟ اگر جموں کشمیر یا وادی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا ایک تابناک ماضی رہا ہے اور اپنی زبان محفوظ رکھنے کے باوجود ہمارے اسلاف نے ان حکمرانوں کی زبانیں بھی سیکھ لی تھیں جنہوں نے یہاں آ کر حکمرانی کی۔ اردو، فارسی، سنسکرت، انگریزی سیکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی مادری زبان یعنی کشمیری کو اول نمبر پر رکھا ہے۔ یہاں کے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں نے اپنی مادری زبان میں ایسے تحریریں قلمبند کی ہیں جنہیں دنیا کے بڑے بڑے سکالر اور دانشور ترجمہ کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اگرچہ کشمیری زبان کو یہاں کے ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کی بدولت اسکولی نصاب میں جگہ ملی، تاہم ہمارے گھروں میں اس زبان کا ہم خود جنازہ نکال رہے ہیں۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، یہاں بھی کچھ نافہم اور قوم دشمن اس زبان کے ساتھ غلط سلوک روا رکھتے ہیں اور اس طرح مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف منظم ہو کر ہمارے قلمکاروں، دانشوروں اور اہل علم حضرات کو لڑنا چاہئے اور گھروں میں والدین کو اپنے بچوں کو اس مادری زبان میں بات کرنے کی شروعات کرنی چاہیے تاکہ ہماری تہذیب، تمدن، ثقافت اور زبان ہمیشہ زندہ رہیں اور ہماری پہچان قائم رہ سکے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img