نیوزڈیسک
سرینگر : میرواعظ محمد عمر فاروق کی قیادت میں چئیرمین پارلیمانی کمیٹی کے سامنے مجوزہ وقف( ترمیمی بل) 2024 سے متعلق خدشات اور اعتراضات یاداشت کی صورت میں پیش کی گئی۔ نئی دلی میں جمعہ کو پیش کی گئی یاداشت میں لکھا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ترامیم مسلم کمیونٹی کے مفادات کے خلاف ہیں اور تمام تسلیم شدہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ وقف کی جائیدادیں مسلمانوں کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں جو اللہ کے نام پر اپنے معاشرے کی بہتری اور محروم طبقے کی مدد کے لیے وقف کی جاتی ہیں۔ ایسے مذہبی سماجی اداروں کو ریاست کی کم سے کم مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم حکومت کی طرف سے مجوزہ ترامیم اس ادارے کی خودمختاری اور فعالیت کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
مجوزہ ترامیم کے حوالے سے خدشات
1. وقف جائیدادوں پر حکومت کی زیادتی اور کنٹرول ہمارا پہلا اعتراض حکومت کی طرف سے کلکٹر کے ذریعے وقف پر قبضے کی تجویز پر ہے۔ کلکٹر کو وقف جائیدادوں کو "سرکاری جائیدادوں” میں تبدیل کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ وہ صرف احکامات جاری کرکے اور ریونیو ریکارڈ میں اندراجات کو تبدیل کرکے ایسا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، کلکٹر کو متنازعہ اور غیر متنازعہ وقف جائیدادوں کے حوالے سے جو من مانے اختیارات دیے گئے ہیں، وہ ان پر بے حد کنٹرول فراہم کرتے ہیں۔ یہ اقدام وقف ایکٹ کے اصل مقصد کو کمزور کرتا ہے، جو کہ مسلم کمیونٹی کے افراد کی جانب سے مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے وقف جائیدادوں کا تحفظ اور نگہداشت کرنا ہے۔
2. مسلم نمائندگی میں کمی
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم اراکین کی تعداد کو 13 اور ریاستی وقف بورڈز میں 7 تک بڑھایا جا رہا ہے، جبکہ پہلے تمام اراکین (سوائے ایک کے) مسلمان ہوتے تھے اور وہ منتخب کیے جاتے تھے۔یہاں تک کہ وقف بورڈ کے سی ای او کے مسلمان ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ یہ مجوزہ تبدیلیاں مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں کیونکہ یہ ریاست کی نامزد کردہ غیر مسلم اراکین کی براہ راست مداخلت کے ذریعے وقف بورڈ کی آزادانہ کارکردگی کو بری طرح متاثر کریں گی۔
3. "وقف بائے یوزر” کی شق کا خاتمہ
ایک اور سنگین مسئلہ "وقف بائے یوزر” کی شق کا خاتمہ ہے، جو یہ تسلیم کرتی تھی کہ کسی پراپرٹی کو طویل عرصے سے مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے وقف کے طور پر استعمال کرنا اسے وقف کے طور پر مقرر کرتا ہے۔ "وقف بائے یوزر” کا خاتمہ نہ صرف وقف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ مساجد اور دیگر اوقاف جیسے مدارس، درگاہوں، آستانوں اور قبرستانوں پر کمیونل دعووں کو بڑھا دے گا جو صدیوں سے موجود ہیں لیکن ریونیو ریکارڈ میں اس طرح درج نہیں ہیں، اور یہ ریاستی حکام کے ذریعے غیر قانونی قبضے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ صورتحال کمیونٹی کے لیے بہت پریشان کن ہے۔
4. جائیداد کی ضبطی کے خطرات میں اضافہ مزید یہ کہ مجوزہ ترامیم حکومت کو وقف جائیدادوں کو محفوظ جائیدادوں کی فہرست سے نکالنے کا اختیار دیتی ہیں۔ اس سے حکومت کو قیمتی وقف جائیدادوں پر قبضہ یا فروخت کرنے کا موقع ملے گا، جس سے مسلم کمیونٹی اپنی مذہبی اور خیراتی سرگرمیوں کی حمایت کے لیے وسائل سے محروم ہو جائے گی۔
5. مسلم پرسنل لاء اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی مجوزہ ترامیم مسلم پرسنل لاءکی خلاف ورزی ہیں، جو کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت محفوظ ہے۔
ان ترامیم سے مسلم کمیونٹی کے اندر عدم تحفظ اور بے اعتمادی میں مزید اضافہ ہوگا، جو پہلے ہی دباو ¿ محسوس کر رہی ہے کہ ان کی مذہبی جائیدادیں سرکاری مداخلت سے محفوظ نہیں رہیں گی۔
6. جموں و کشمیر کے لیے علاقائی اثرات
ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسلم اکثریتی علاقہ جموں و کشمیر ان ترامیم کو اپنی مذہبی آزادی اور اداروں کی خودمختاری کو کمزور کرنے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھتا ہے لہٰذا ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان مجوزہ ترامیم پر نظرثانی کریں اور انہیں مسترد کریں، اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ تعمیری بات چیت کریں تاکہ ان خدشات کو دور کیا جا سکے اور ان سے تجاویز لی جا سکیں کہ وہ وقف ایکٹ میں کس قسم کی تبدیلیاں چاہتے ہیں، اگر کوئی ہوں، تاکہ یہ ان کے فائدے کے لیے زیادہ مو ¿ثر بنایا جا سکے اور ان پر یہ امتیازی ترامیم زبردستی نہ تھوپی جائیں۔
اس یاداشت میں چند درخواستیں بھی پیش کی گئیں
1) مجوزہ ترامیم کو فوری طور پر مسترد کیا جائے۔
2) متعلقہ فریقین کے ساتھ مشاورت کی جائے۔
3) مذہبی خودمختاری کے لیے تحفظات فراہم کیے جائیں۔
4) وقف جائیدادوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے وغیرہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ متحدہ مجلس علما جموں وکشمیر کے تمام بڑے علما، اسلامی اور تعلیمی اداروں کی ایک نمائندہ تنظیم ہے۔ جن میں انجمن اوقاف جامع مسجدسرینگر، دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کشمیر، انجمن شرعی شیعان، جمعیت اہلحدیث، جماعت اسلامی ،کاروان اسلامی، اتحاد المسلمین، جامعہ سبیل الھدیٰ بمنہ سرینگر کشمیر، انجمن حمایت الاسلام، انجمن تبلیغ الاسلام، جمعیت ہمدانیہ، انجمن علمائے احناف،دارالعلوم قاسمیہ،دارالعلوم بلالیہ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔اور نمائندہ جماعت کی سربراہی میرواعظ محمدعمر فاروق کر رہے ہیں۔
بتا دیں کہ مولوی محمد عمر فاروق میرواعظ کشمیر ہیں جبکہ یہ کُل جماعتی حریت کانفرنس کے چئیرمین بھی ہیں۔