دنیا بھر میں کل تعلیم کا عالمی دن منایا گیا اور اس حوالے سے ہر مجلس و محفل میں تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا گیاہے۔دنیا کے ماہر تعلیم ،علماءاور دانشوروں نے تعلیم کے فوائد سے بنی نواع انسان کوباور کیا اور اس امر کو دہرایا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کے لئے لازمی ہے۔ تعلیم بنی نواع انسان کو انسایت کے گُر سکھا دیتا ہے اورموجودہ ترقی یافتہ دور میں بنا تعلیم کے انسان کا جینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتاہے کیونکہ زندگی کے ہر مرحلے پر آج کے انسان کو علم کی ضرورت پڑتی ہے ۔گھر سے لیکر بازار تک اور بازار سے لیکر سرکاری دفتر تک ہر جگہ انسان کو موجودہ ڈیجیٹل دور میں علم کی ضرورت پڑتی ہے۔
اگر چہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی تعلیم حاصل کرنا اب لازمی قرار دیا گیا ہے پھر بھی ملک میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزربسر کرنے والے لاکھوں بچے تعلیم کے نور سے دور ہیں۔بہر حال سرکا ر کی یہ کوشش ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ہر فرد تعلیم کے نور سے منور ہو جائے لیکن اس کے لئے ابھی بہت محنت کرنی باقی ہے ، تب جاکر ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح سو فیصد مکمل ہو جائے گی اور ناخواندگی کا پوری طرح خاتمہ ہو جائے گا۔یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا بے حد ضروری ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ،صرف ڈگریاں حاصل کرنا ہی نہیں بلکہ معاشرے میں موجود بُرائیوں کا مکمل خاتمہ بھی ہونا چاہئے ۔جہاں تک مشاہدے میں آرہا ہے پہلے ایام میں ہمارے معاشرے میں بُرایاں بہت کم ہوتی تھیں، برعکس اس کے کہ تعلیم عام نہیں تھی ۔آج ہمارے جموں کشمیر میں 95فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں اور ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔تعلیم کے میدان میں ہمارے بچے کامیابی کی نئی نئی تاریخیں رقم کررہے ہیں۔آئی اے ایس اور کے اے ایس کی تعدداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔سائنس اور کھیل کے میدان میں ہمارے بچوں کا ملک بھر میں مقابلہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں جرائم کا گراف روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔
بچے والدین کا قتل کررہے ہیں ،چوری ڈاکہ زنی ،شراب خوری اور دیگر نشیلی لت میں ہمارے نوجوان گرفتار ہو رہے ہیں ۔سارا سماج ان معاملات کو ٹھیک کرنے میں لگا ہے پھر بھی وہ کامیابی حاصل نہیں ہو پارہی ہے۔ان باتوں پر غور کرنے کی بے حد ضرورت ہے آخروجہ کیا ؟۔پُرانے ایام میںہمارے اسکولوں میں مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی بچوں کو دی جاتی تھی تاکہ بڑے ہو کر وہ نہ صرف اچھی نوکری یا اچھا کاروبار ہی نہ کر یں بلکہ وہ اچھے انسان بھی بن سکیں۔ہمارے اساتذہ صاحبان بچوں کو پڑھائی ،لکھائی کے ساتھ ساتھ بہتر انسان بننے پر اپنی زور آزمائی کرتے تھے۔بڑھے ہوکر یہی بچے سماج میں انقلاب بر پا کرتے تھے اور ایک بہتر معاشرے بنانے میں مثالی کردار اداکرتے تھے۔اس کے برعکس آج کے ترقی یافہ دور میں اُستاد بھی دولت حاصل کرنے کے لئے بچوں کوپڑھاتے ہیں اور بچوں کو بھی یہی خیال ہو تا ہے کہ انہیں تعلیم حاصل کر کے دنیا میں دولت کمانی ہے اور ایک اچھی زندگی بسرکرنی ہے لیکن نتیجہ بعد میں کچھ اور ہی نکل کر سامنے آتا ہے۔
جو اچھا عہدہ حاصل کرنے اور صرف دولت کمانے کے لئے تعلیم حاصل کرتا، وہ کبھی زندگی میں خوش نہیں ہوتا ہے نہ ہی اُس کی زندگی پُرسکون گزرتی ہے۔اساتذہ اور والدین کی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی کہ وہ اپنے بچوں کو مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ وہ اپنے سماج کے لئے ایک بہتر انسان ثابت ہو ۔تعلیم کے عالمی دن کے موقعے پر ہمیں ان باتوں کی جانب توجہ د ینی چا ہیے تب جاکر علم کی اصل حقیقت سے نوجوان نسل منور ہو سکے گی اور اس طرح صاف و شفاف معاشرہ سامنے آئے گا اور ترقی و خوشحالی چار سو پھیل جائے گی جو علم کا اصل مدعا ومقصد ہے۔