مختار احمد قریشی
صبح کے دھندلے میں منظور اپنے معمول کے کام سے کچھ ہٹ کر آج مچھلیاں پکڑنے کے ارادے سے نکلا۔ بیوی نے ایک بار پھر کہا، پانی کا گیٹ بند ہوگا، شاید آج تمھاری قسمت بدل جائے۔ یہ وہی بات تھی جو منظور ہر روز سنتا تھا، لیکن اس میں امید کی ہلکی سی کرن چھپی ہوئی تھی، جو اسے پھر سے کوشش کرنے پر آمادہ کرتی۔
گاو¿ں کے دیگر مرد، عورتیں، اور بچے بھی دریا کے کنارے جمع تھے۔ کچھ اپنی ٹوکریاں لیے کھڑے تھے، تو کچھ مچھلیاں پکڑنے کے جال تیار کر رہے تھے۔ منظور بھی انہی لوگوں کے درمیان کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے دل میں ایک عجیب سا جوش تھا، جیسے آج قسمت مہربان ہوگی۔
پہلے دن منظور نے بڑی محنت سے جال ڈالا۔ کئی گھنٹے گزر گئے، لیکن جال خالی ہی رہا۔ دوسری طرف کچھ لوگ بڑی بڑی مچھلیاں نکال رہے تھے اور خوشی کے گیت گا رہے تھے۔منظور خالی ہاتھ گھر لوٹا تو بیوی نے تسلی دی، شاید کل بہتر ہو۔اگلے دن بھی یہی ہوا۔ منظور نے نہ صرف جال بدلا بلکہ جگہ بھی بدل دی، لیکن نتیجہ وہی رہا۔مایوسی کے آثار اس کے چہرے پر واضح تھے، لیکن اس کے دل میں محنت کی جوت ابھی بجھی نہیں تھی۔
تیسرے دن اس نے اپنی تمام تر کوششیں لگا دیں۔ اس کے ہاتھ زخمی ہوگئے، پانی کی ٹھنڈک نے اس کے جسم کو جھنجھوڑ دیا، لیکن مچھلی کا ایک سایہ بھی نظر نہ آیا۔ گاو¿ں کے کچھ لوگ اسے مذاق کا نشانہ بنا رہے تھے، منظور بھائی، شاید تمھاری قسمت میں مچھلیاں پکڑنا نہیں۔
چوتھے دن منظور نے مچھلیاں پکڑنے جانے کے بجائے اپنے بچوں کو گلے لگایا۔ وہ سوچنے لگا کہ شاید یہ وقت جو میں مچھلیوں کے پیچھے برباد کر رہا ہوں، اسے بہتر کام میں لگا سکتا ہوں۔ اس نے محنت مزدوری کرنے کا فیصلہ کیا اور سوچا، جو چیز قسمت میں نہیں، وہ لاکھ کوشش کے باوجود نہیں ملتی۔ منظور اب مچھلیاں پکڑنے والوں کو دیکھ کر مسکرا دیتا۔ گاو¿ں والے اسے عجیب نظروں سے دیکھتے، لیکن منظور کو کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے لیے محنت میں لگا رہا تھا۔
کئی سال بعد منظور کا بیٹا گاو¿ں کا پہلا پڑھا لکھا نوجوان بنا۔ گاو¿ں کے لوگ جو پہلے منظور کا مذاق اڑاتے تھے، اب اسے عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ منظور کے لیے یہ سب کچھ اس مچھلی سے کہیں زیادہ قیمتی تھا جس کی وہ کبھی خواہش کرتا تھا۔ یہ کہانی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ قسمت اور محنت کے درمیان ایک نازک توازن ہے۔ محنت ضرور رنگ لاتی ہے، لیکن کبھی کبھار ہماری خواہشات ہمارے نصیب سے نہیں ملتیں۔ منظور کی کہانی ہمیں صبر، حقیقت کو قبول کرنے، اور اپنی زندگی کی ترجیحات پر غور کرنے کا سبق دیتی ہے۔
منظور نے مچھلیاں پکڑنے کی ناکامی کو اپنی زندگی کا موڑ بنایا۔ اس نے اپنی محنت کو دوسری سمتوں میں لگایا۔ وہ گاو¿ں کے کسانوں کے ساتھ کام کرنے لگا، زمین کھودنا، بیج بونا، اور فصلیں اگانا اب اس کا نیا پیشہ بن گیا۔ منظور کی محنت کا رنگ لانا شروع ہوا۔ ایک دن وہ گاو¿ں کے مشہور کسانوں میں شمار ہونے لگا۔اس کے بیٹے نے بھی تعلیم میں بہترین کارکردگی دکھائی اور ایک بڑی اسکالرشپ حاصل کی۔منظور اب فخر سے کہتا تھا، جو وقت میں نے مچھلیاں پکڑنے میں ضائع کیا، اگر وہ پہلے اپنے بچوں اور کام میں لگایا ہوتا تو شاید یہ کامیابی جلدی ملتی۔
گاو¿ں کے لوگ، جو کبھی منظور کا مذاق اڑاتے تھے، اب اس کی کامیابیوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ سب اس کے پاس آتے اور کہتے، منظور بھائی، آپ کی کہانی نے ہمیں سکھایا کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ منظور مسکراتے ہوئے کہتا، ہاں، محنت ضرور کامیاب کرتی ہے،لیکن ہمیں اپنی محنت کو صحیح سمت میں لگانے کی ضرورت ہے۔
ایک دن، گاو¿ں میں یہ خبر پھیل گئی کہ پانی کا گیٹ ہمیشہ کے لیے بند ہونے والا ہے۔ سب لوگ دریا کے کنارے جمع ہوگئے، لیکن منظور وہاں نہیں گیا۔ وہ اپنے کھیتوں میں کام کر رہا تھا۔ گاو¿ں کے لوگ، جو اب بھی مچھلیاں پکڑنے میں لگے ہوئے تھے، اس حقیقت کو نہ سمجھ سکے کہ پانی کے گیٹ کا بند ہونا ان کے لیے مچھلیاں پکڑنے کا اختتام تھا۔
منظور نے گاو¿ں کے بچوں کے لیے ایک اسکول بنوایا۔ اس نے کہا، ہمیں اپنی زندگی میں ایسے مواقع پیدا کرنے چاہئیں جو نہ صرف ہمارے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوں۔ اس نے اپنی کہانی سنائی، مچھلیاں پکڑنا میرا خواب تھا، لیکن میرے بچوں کو تعلیم دلانا میری زندگی کا مقصد بن گیا۔گاو¿ں کے لوگ منظور کی باتوں کو سن کر متاثر ہوئے اور اس کے نقش قدم پر چلنے لگے۔
منظور کے پاس ایک بات ہمیشہ رہتی، زندگی ایک دریا کی مانند ہے۔ کبھی یہ پر سکون ہوتی ہے، اور کبھی طوفانی۔ لیکن ہمیں کشتی چلانے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔منظور کی کہانی اب گاو¿ں کے بزرگوں کے لبوں پر رہتی تھی، جو نوجوانوں کو یہ سکھاتے تھے کہ محنت، صبر، اور حقیقت کو قبول کرنا کامیاب زندگی کے ستون ہیں۔ دریا، جس کے کنارے منظور نے اپنی زندگی کے کئی دن گزارے تھے، اب سنسان تھا۔ لیکن وہ دریا، جو کبھی مچھلیوں کا مسکن تھا، اب گواہ تھا منظور کی کامیابی کا، جو اس نے مچھلیوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے زندگی کی حقیقت کو سمجھ کر حاصل کی۔
(کالم نگار مصنف ہیں اور پیشہ سےایک استاد ہیں اور ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
