پرنٹ میڈیا کے وجود کو خطرہ لیکن قلم سے لکھا ہوا کبھی نہیں مرتا :سینئر صحافی سہیل کاظمی
شوکت ساحل
جموں :جموں وکشمیر کے سینئر صحافی اورروزنامہ تسکین کے مدیر اعلیٰ ،سہیل کاظمی نے کہا کہ اردو صحافت سے وابستہ صحافیوں کو جدید صحافت سے ہم آہنگ ہو نا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا :’ڈیجیٹل میڈ یا کے اس دور میں پرنٹ میڈیا کو شدید خطرات کا سامنا ہے ، لیکن قلم سے لکھا ہوا کبھی نہیں مرتا ‘۔
ایشین میل کے ملٹی میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے روزنامہ تسکین کے مدیر اعلیٰ نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے سبب پرنٹ میڈیا کے لئے دشواریاں بڑھ رہی ہیں ،لیکن جہاں تک معیار کا تعلق ہے ،وہ اب بھی پرنٹ میڈیا میں ہی پایا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا :’ پرنٹ میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا میں آسمان زمین کا فرق ہے ،لیکن میرا ماننا ہے کہ رائٹنگ (لکھائی ) سب کے بس کی بات نہیں ،رائٹر چھوٹا ہو یا بڑا ،برا ہو یا اچھا ،وہ جو بھی لکھتا ہے ،یقین ِ کامل سے لکھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کی تحریر میں کم سے کم غلطیاںہو ،اس لئے میرا ماننا ہے کہ تحریر ہی سند ِ تاریخ ہے ‘۔
ان کا کہناتھا: ’اردو صحافت سے وابستہ صحافیوں کو اپنے معیار کو بلند کر نا چاہیے ،کیوں کہ معیار کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے ، اسکوپذیرائی بھی ملتی ہے اور حوصلہ افزائی بھی ہوتی ۔‘انہوں نے کہا :’زندگی ایک چیلنجنگ جاب ہے ،محنت ضرور رنگ لاتی ہے ،لہٰذا ہمیں مایوس ہونے کی بجائے معیار اور اچھے کام پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ‘۔
ایک سوال کے جواب میں سینئر صحافی نے کہا :’دستاویزات پر مبنی مواد ہمیشہ تاریخ کے پسِ منظر میں چلا جاتا ہے ،یعنی قلم سے لکھا ہوا کبھی نہیں مرتا ،اس کا کہیں نہ کہیں حوالہ دیا جاتا ہے ،آنے والی دس نسلوں میں بھی اس کا ذکر ہوتا ہے ،آتش ِ چنار کا ذکر آج بھی ہوتا ہے ،عمر عبداللہ بھی اور اس کی اولادیں بھی اس کا ذکر کریں گی،کوئی نہیں کہے گا ،آپ نے یوٹیوب اور نیوز چینل کو انٹر ویو دیا ،اس کا کیا ہوا ؟‘۔ انہوں نے کہا: ’مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک یا شرم محسوس نہیں ہوتی کہ جموں وکشمیر میں بہت کم عملی صحافت سے واقف ہیں بلکہ 5فیصد ہی لوگ عملی صحافت کے بارے میں جانتے ہیں۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں سینئر صحافی سہیل کاظمی نے کہا: ’دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ،اس میں پرنٹ میڈیا کے مستقبل کو شدید خطرات لاحق ہیں ،بلکہ پرنٹ میڈیا اس دور میں ختم ہورہا ہے ۔‘ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سہیل کاظمی کہتے ہیں:’جموں وکشمیرمیں پرنٹ میڈیا یا اخبار نویسی کا انحصار صرف اور صرف سرکاری اشتہارات پر ہے ،سرکاری اشہارات اخبار نویسی کے لئے اشتہارات ریڑھ کی ہڈی کی مانند رکھتے ہیں ،2014میں ڈیجیٹل میڈیا کا نعرہ بلند کیا گیا ،لیکن پرنٹ میڈیا کو زندہ رکھنے پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا ‘۔
ان کا کہناتھا ’جموں وکشمیر کے صحافیوں کی کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ،45سال سے اس پیشے سے تعلق رکھتا ہوں ،بس چند ایک چاپلوس جو راہداریوں میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں،تاہم میرا ماننا ہے کہ معتبر میڈیا کو ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے ،مجھے پورا بھروسہ ہے کہ حالات بدل جائیں گے ‘۔
انہوں نے کہا ’آج کے فیک نیوز کے دور میں ہر کوئی بریکنگ نیوز اور ٹی آر پی کی طرف بھا گ رہا ہے ،سٹوری سچی اور جھوٹی بس دکھا وا کرنا ہے ،اس کا خمیازہ صحافت تو بھگت رہی ہے ساتھ ساتھ ہی سماج اورمعاشرہ بھی بعض اوقات اس کی زد میں آتا ہے ‘۔ان کا کہناتھا ’میں اس بات پر قائم ہوں کہ معتبر اور معیاری صحافت ہی آگے بڑھے گی ۔کیوں کہ صبح کے ہیرو شام کو زیر و ہوتے ہیں ‘۔
ایک سوال کے جواب میں سینئر صحافی سہیل کاظمی نے بتایا ’کالجوں اور یونیورسٹیز سے صحافت کی تعلیم حاصل کرکے فارغ ہونے والے نوجوانوں کے لئے محکمہ انفارمیشن کے دائرہ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ اُن کے لئے روزگار کا وسیلہ پیدا ہوسکے اور مقامی سطح پر میڈیا ہاﺅسز کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ وہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا ہوسکے ‘۔
ان کا کہناتھا کہ موجودہ حکومت کی مقامی میڈیا ہاﺅسز کے لئے جامع پالیسی مرتب کرنی چاہیے ،چونکہ عمر عبداللہ نوجوان وزیر اعلیٰ ہیں ،لہٰذا ان سے امید کی جاسکتی ہے ‘۔انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل کے لئے پوری دنیا کے دروازے کھلے ہیں ، بس اُنہیں معیاری کام پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور محنت اور لگن سے آگے بڑھنا چاہیے ،خاص کر لڑکیوں کو جو اب صحافت کے میدان میں آگے آرہی ہیں ۔
ان کا کہناتھا ’پوری دنیا آج ہاتھ میں سمٹ گئی ہے ۔ڈیجیٹل میڈیا نے ایک انقلاب بپا کیا ہے اور روزگار کے نئے دروازے کھل رہے ہیں جبکہ نئے اور نوجوان صحافیوں کو محنت اور لگن کیساتھ اب خود اپنا راستہ تلاش کرنا ہوگا ۔ سہیل کاظمی سے جب پوچھا گیا کہ وہ لاءگریجویٹ ہیں ،تو انہوں نے صحافت کا ہی پیشہ کیوں اختیار کیا ،تو انہوں نے کہا ’میں لاءگریجویٹ ہوں ،شاید میں اچھا وکیل نہیں بن سکتا تھا ،اس لئے صحافت کے پیشے کو اختیار کیا ،زندگی میں کافی دشواریاں آئیں ،لیکن محنت اور لگن سے صحافت کے میدان میں چار دہائیوں کا سفر کامیابی سے مکمل کرلیا ‘۔