ریزر ویشن پالیسی پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ،رنگا رجن کمیٹی کی سفارشات لاگو کی جائیں :تاریگامی
شوکت ساحل
جموں :سی پی آئی (ایم ) کے سینئر رہنما اور ممبر اسمبلی کولگام ،محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ اختیارات سے محروم محروم جموں وکشمیر کی سرکار اور عوامی خواہشات اورتوقعات میں کافی خلا موجود ہے ،جسے حکمت ،سمجھ داری اور جرات مندی سے پُر کرنے کی ضرورت ہے ۔ایشین میل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ جموں وکشمیر میں سنہ2018کے بعد عوامی سرکار تو تشکیل پائی ہے ، لیکن جن حالات میں یہ سرکار بنی ہے ،اس پر تبصرہ کرنا بھی ضروری ہے ۔ان کا کہناتھا کہ جموں وکشمیر کے دونوں صوبوںعوام کی امیدیں ،خواہشات اور توقعات کی فہرست کافی لمبی ہے ،اس میں کوئی دور رائے نہیں ۔انہوں نے کہا ’ جموں وکشمیر کے عوام الگ الگ مذہب ،زبان اور الگ الگ عقیدے تو رکھتے ہیں ،لیکن ہمارا معاشرہ ،تہذیب وتمدن اور ثقافت ایک ہے ،ہمارے مسائل یکساں ہیں ،بھوک ، بے روزگاری اور مہنگامی کا سامنا یکساں طور پر سب کو ہے ،جموں وکشمیر کے عوام کی تشویش جائز ہے ‘۔محمد یوسف تاریگامی نے پانچ اگست2019کے فیصلہ جات کے پسِ منظر کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’حالات ایسے سنگین ہیں ،جن کا سامنا دونوں صوبوں کے عوام کو یکساں طور پر کرنا پڑ رہا ہے ،بے روزگاری کشمیر میں بھی ہے اور جموں میں بھی ،بجلی کی عدم دستیابی کشمیر میں بھی ہے اور جموں میں بھی ،کام کرنے کا مارکیٹ کشمیر میں بھی سکڑ رہا ہے اور کشمیر میں بھی ،یہ زمینی حقائق ہیں ،جو ہمارے حالات کی عکاسی کرتے ہیں ،ان ہی حالات میں موجودہ سرکاری کو عوامی مینڈیٹ ملا ہے ‘۔
محمد یوسف تاریگامی نے کہا ’ ’اختیارات سے محروم سرکار اور عوامی توقعات میں کافی خلا،یہ تلخ حقیقت ہے ،اور میں ذاتی طور پر عمر عبداللہ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایک طرف عوامی مسائل کا انبارہے ،دوسری طرف ڈیلیوری کی صلاحیت موجودہ اختیارات سے کافی ہے ‘۔محمد یوسف تاریگامی نے کہا ’ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ ان حالات میں ہم عوامی توقعات اور خواہشات پر پورا کھرا اتریں گے بھی یا نہیں ‘ ۔انہوں نے عوامی بے باکی انداز میں کہا ’لیکن ہم کچھ بھی نہ کریں ، یہ وجہ نہیں بننے چاہیے کہ سرکاری کے پاس اختیارات نہیں ہیں اور عوام کو راحت نہ ملے ،ایسا نہیں ہونا چاہیے ‘۔ممبر اسمبلی کولگام نے کہا ’ میر ا عمر عبداللہ کو ایک ہی مشورہ ہے کہ وہ(عمر عبداللہ ) عوام کو راحت پہنچا نے کے لئے ان تمام آپشنز کا استعمال کریں ،جو ان کے پاس دستیاب ہیں،بلے ہی عوام کو راحت پہنچانے کے لئے عمر عبداللہ کے پاس آپشن کاایک دریچہ ہی کیوں نہ ہو ،اس کا استعمال کرکے عوام کو راحت پہنچا ئیں ‘۔
محمد یوسف تاریگامی نے کہا ’لیڈر شپ کا رول سنگین حالات میں ہی ہوتا ہے ،موجودہ حالات کا مقابلہ دانشمندی ،حکمت اور جرات مندی سے کرنے کی ضرورت ہے ،لیڈرشپ کی یہ ذمہداری ہے کہ وہ عوام کو راحت پہنچائیں ،جس کے لئے اُنہیں مینڈیٹ ملا ہے،اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ بھی مناسب قدم ہوگا ‘۔محمد یوسف تاریگامی نے ایک سوال کے جواب میں کہا ’بجلی بحران سے نمٹنے کے لئے واحد ایک راستہ ہے ،وہ ہے سی رنگا راجن کمیٹی کی سفارشات کو من وعن لاگو کرنا ‘۔ان کا کہناتھا کہ سی رنگا راجن کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ جموں وکشمیر کو سندھ۔طاس معاہدے کی وجہ سے بھاری نقصان کا سامنا ہے اور اسکی بھر پائی کے لئے دو پاﺅر پروجیکٹ جموں وکشمیر کے حد ِ اختیار میں آنے چاہیے ،یہ جموں وکشمیر کے عوام کا حق ہے ۔ان کا کہناتھا کہ آبی وسائل ہمارے ہیں ،لیکن ہم ڈیم کی تعمیر نہیں کرسکتے جبکہ ہمارے آبی وسائل پر پیدا ہونے والی بجلی کا40فیصد حصہ ہمیں ملنا چاہیے ،ہر ریاست کو دس فیصد حصہ ملتا ،لیکن ہم مطالبہ کررہے ہیں ،ہمیں40فیصد حصہ دیا جائے ،کیوں کہ آبی وسائل ہمارے ہیں ،جہاں سے بجلی نیشنل گریڈ کو جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کو ہورہے نقصانات کا معاوضہ ملنا چاہیے ،لیکن ماضی کی سرکاروں اور موجودہ سرکار بھی ہم سے نا انصافی کررہی ہے ۔تاریگامی نے کہا’ ہم مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم سے انصاف کیا جائے اور سی رنگا رجن کمیٹی کی شفارت کا لاگو کرنے سے ہمارے زخموں کو مدا وا ہوسکتا ہے ‘۔انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا’ سمارٹ میٹر نصب کرنا ہی کافی نہیں بلکہ بجلی سپلائی کو بھی سمارٹ بنایا جائے ،سمارٹ میٹر بجلی بلیں بنانے میں تیز رفتاری کا مظاہرہ تو کررہے ہیں ،لیکن بجلی کی فراہمی خانیار سے لیکر خادنیار تک مایوس کن ہے ۔ان کا کہناتھا ’ بجلی کی نجکاری مسائل کا حل نہیں ،اگر اس کو پبلک سیکٹر کے دائرے میں لایا جائے ،تو کچھ مناسب بات ہوگی ‘۔
ایک سوال کے جواب میں محمد یوسف تاریگامی نے کہا ’ریزرویشن پالیسی پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے ،کیوں کہ اوپن میرٹ کے خدشات اور اعتراضات کو صرف ِ نظر نہیں کیا جاسکتا ہے ‘۔ان کا کہناتھا کہ جہاں کمزور طبقوں سے انصاف کیا جارہا ہے ،وہیں اوپن میرٹ میں آنے والے غریب طبقے سے بھی انصاف ہونا چاہیے ،مزید طوالت نقصان دہ ثابت ہوگی ‘۔انہوں نے کہا کہ ریزرویشن پالیسی کے حوالے سے دوبارہ جامع جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اوپن میرٹ کی مانگ پر بھی دھیان دینا ناگزیر ہے ۔
ایک اور سوال کے جواب میں محمد یوسف تاریگامی نے کہا ’جموں وکشمیر میں بدلتے سیاسی منظر نامے سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے بلکہ وہ کل بھی عوام کے سپاہی تھے اور آج بھی عوام کے سپاہی ہیں،جائز مطالبات پورے نہیں ہوں گے ،تو سڑک پر آنے سے مجھے کوئی روک نہیں سکتا ہے ‘۔انہوں نےکہا کہ جموں وکشمیر کی ایک ریاستی تاریخ ہے ،جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ان کا کہناتھا کہ1927میں مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں وکشمیر کے عوام کی خاطر زمین اور ملازمتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا ۔انہوں نے کہا ’یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ،جس کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ،اس کی مثال ہمیں خطہ لداخ کے لہیہ میں موجودہ جنرل زوراور سنگھ کے مجسمہ سے خوب ملتی ہے ۔ان کا کہناتھا ’دفعہ 370کی تنسیخ پر بحث لمبی ہے ،تاہم ریاستی درجے کو ہی بحال کیا جائے اور ہمیں زمین اور نوکریوں کا تحفظ دیا جائے ،جس کو مہاراجہ ہری سنگھ نے پنڈتوں کی صدائے احتجاج پر جموں وکشمیر میں 1927لاگو کرکے پنجاب کے لئے بندشیں کھڑی کی ہیں ،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ‘۔