وادی میں روزانہ درجنوں منشیات اسمگلروں اور اس خطرناک وباءکوپھیلانے والوںکو گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتاہے ۔جموں وکشمیر پولیس کی جانب سے منشیات مخالف اس مہم کے دوران ایسے لوگوں کی جائیدادیں بھی ضبط کی جاتی ہیں، جو اس تباہی کو پھیلانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق جموں کشمیر میں لاکھوں افراد کو نشے کی لت میں مبتلاءکیا گیا ہے، جن میں زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔ہم نے اس سے قبل سماج کے مختلف طبقوں اور ارباب اقتدار تک یہ باتیں پہنچانے کی کوشش کی تھی کہ آخر ایک طرف پولیس اور دیگر قانون ساز ایجنسیاں اس خطرناک وباءکو روکنے کے لئے جی توڑ محنت کر رہی ہیں اور دوسری جانب نشے کے مرض میں مبتلاءلوگوں کی تعد ادروز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کہاں سے ان لوگوں کو یہ نشیلی چیزیں فراہم ہورہی ہیں؟کون لوگ اس کے پیچھے کام کر رہے ہیں؟ ۔اگر پولیس ریکارڈ دیکھا جائے تو آج تک کسی بھی بڑے سرغنہ کو گرفتار نہیں کیا گیا ،جو اس نیٹ ورک کے اصل مجرم ہیں۔ڈرگ مافیا کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ پوری دنیا میں یہ سب سے خطرناک نیٹ ورک ہے اور اس سے جڑے افرادروزانہ اربوں روپے کا ڈرگ بازاروں میں فروخت کرتے ہیں اور ان کی تار دور دور تک جڑی ہوتی ہے۔
جہاں تک جموں کشمیر کا تعلق ہے گزشتہ دو برسوں سے یہاں ایک زور دار مُہم اس وباءکے خلاف شروع کی گئی ہے اور اس سلسلے میں آج تک سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا اور درجنوں افراد کی جائیدادیں ضبط کی گئیں جبکہ درجنوں افراد پر سخت قوانین بھی عائد کئے گئے ۔روزاسکولوں ،کالجوں اور دانشگاہوں میں اس حوالے سے سمینار اور کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں اور اس طرح لوگوں کو اس خطرناک اور جان لیوا وباءکے بارے میں آگاہ کیا جاتاہے کہ کوئی بھی نشہ آور چیز استعمال کرنے سے کس طرح انسان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے او ر لوگوں کا دماغ زنگ آلودہ بنایا جارہا ہے۔اس مُہم کے باوجود تعداد میں کمی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟۔گزشتہ جمعہ کے دوران اس صورتحال پر میر وعظ کشمیر مولودی محمد عمر فاروق نے ایک خطبے کے دوران لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اس حوالے سے متحرک ہو جائیں اور اپنے بچوں پر نظر گزر رکھیں کہ ان کی دوستی اور صحبت کن کن کے ساتھ ہے۔کئی بر س قبل یہ باتیں بھی سامنے آئی تھی کہ ڈرگ کا کاروبار کرنے والے افراد مختلف اسکولوں اور کالجوں میں اپنا نیٹ ورک چلاکرکے اپنی تجارت کو فروغ دے رہے تھے لیکن کسی بھی ایسے ایک فرد کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے، جو اس نیٹ ورک کا حصہ ہے یا کسی ایک نجی اسکول کا نام آج تک سامنے نہیں آیا ،جہاں پر منشیات کا استعمال طلبہ کررہے ہیں۔کہاں جارہا ہے ان اسکول مالکان کی پہنچ بہت آگے تک ہے اور یہ سرمایہ دار بھی ہیں ۔بعض کا خیال ہے کہ بعض سیاستدان بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہے لیکن آج تک کوئی نامی گرامی سیاستدان یا سرمایہ دار کو گرفتار نہیں کیا گیا۔پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروںکو اس حوالے سے بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے، تب جاکر سخت قوانین کام آسکتے ہیں اور اس دباءکی روک تھام ممکن ہوسکے گی جس کے لئے سرکار ، انتظامیہ اور جموں وکشمیر پولیس زور آزمائی کر رہی ہے۔