سال2020 میں شروع کی گئی قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) ایک پالیسی دستاویز ہے، جو نہ صرف تعلیم پر ”ایس ڈی جی “کے اہداف کا احاطہ کرتی ہے،بلکہ ہندوستان کے نوجوانوں کو 21ویں صدی کی علم پر مبنی معیشت سے ابھرنے والے چیلنجز اور مواقع سے نمٹنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ رواں برس ہی خزانہ اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے اقتصادی سروے2023-24 پارلیمنٹ میں پیش کیا۔سروے میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں اسکولی تعلیم کا نظام، سرکاری اور نجی اسکولوں کے ساتھ، مختلف سماجی و اقتصادی پس منظر سے تعلق رکھنے والے تقریباً26 کروڑ طلبا کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور قومی تعلیمی پالیسی2020، اعلیٰ معیار کی تعلیم کاایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینے کے لیے، جس کی جڑیں ہندوستانی ثقافت میں ہوں اور اس میں ہندوستان کو عالمی علمی سپر پاور کے طور پر قائم کرنے کی صلاحیت ہو ،تین سے اٹھارہ سال کی عمر کے تمام سیکھنے والوں کو ان تک رسائی فراہم کرنا چاہتا ہے۔
حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی اپنی جگہ ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی زمانہ میں تعلیم حاصل کرنا بڑا دشوار گزار کام ہوا کرتا تھا۔صرف بڑے شہروں میں اسکول قائم تھے۔جوبچے شہروں سے دورکسی گاو¿ں میں رہتے‘ ان کے لئے اسکولی تعلیم حاصل کرنا بڑا دشوار تھا۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ہر کوئی جس درجہ تک چاہے کہیں سے بھی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ہر مقام پراسکولوں اور کالجوں کی کثرت ہے۔یعنی آج کے دور میں پڑھائی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں رہا ۔حکومت مفت تعلیم کی سہولیت فراہم کرتی ہے جبکہ اسکالرشپ بھی دی جاتی ہے ۔آئین ہند میں واضح ہے کہ ہر شہری کو تعلیم آراستہ ہونا ،اُس کا بنیادی حق ہے ۔آج کے دور میں تعلیم تو حاصل کی جارہی ہے ،لیکن شعور کا فقدان سدت سے محسوس کیا جارہا ہے ۔وجوہات بہت ساری ہیں ۔اول تو جدید تعلیم کو یقینی بنانے کے لئے اساتذہ کو تربیت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔اساتذہ کی زبان کو درست کرنا لازمی ۔نجی تعلیمی اداروں میں پڑھا نے والے اساتذہ جب طلبا وطالبات سے ’Oyeکون شور کررہا ہے؟ ،کیا ہوا تمہیں پیٹ میں درد ہے کیا؟،تو کیا کررہا ہے؟ ،سارے کے سارے ہیڈ ڈاﺅن کرو “ اور بھی نہ جانے کیا کیا ؟ انتہائی ادب اور احترام کیساتھ یہ تعلیم نہیں جہالت ہے ۔
اسکولوں کو کامیاب اورمثالی بنانے کے لئے بعض مسلمہ اصول فیصلہ کن رول ادا کرتے ہیں۔کامیابی اور ناکامی معلوم کرنے کیلئے صرف یہ دیکھا جائے گا کہ کس اسکول کی جانب سے کس قدر ان مسلمہ اصولوں کی پابندی کی جارہی ہے؟اسکے پیش نظر جب ہم اپنی مجموعی صورت حال کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اسکول ان اصولوں کا خاطر خواہ لحاظ نہیں رکھ پارہے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ میں ان کا وجود برائے نام رہ گیا ہے۔ورنہ اگرصحیح معنوں میں اسکول قائم کئے جائیں تو ان کی حیثیت معاشرہ میں بس ایک تعلیمی ادارہ کی سی نہیں ہوگی بلکہ وہ انسانیت سازی اور خدمت سازی کے ایک باوقار مرکز کے طور پر جانے پہچانے جائیں گے۔اسکولوں کو معیاری بنانے کے لئے جہاں جدید تعلیم کے لئے تیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ،وہیں غیر نصابی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ بھی لازمی ہے ۔سرکاری اسکولوں کو دور دراز علاقے میں محض قائم کرنے سے تعلیم کو پروان طڑھایا جاسکتا ہے بلکہ اساتذہ اور طلبہ (دونوں کی) کی حاضری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔نجی تعلیمی اداروں کو جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے ،جو مختلف سرگرمیوں کے نام والدین سے موٹی موٹی رقمیں حاصل کررہے ہیں ۔نجی اسکولوں کے احکامات ایسے ہوتے ہیں جیسے سلطان ِ وقت کا فرمان ہو ۔شام کو مسیج کی جاتی ہے کہ صبح اپنے بچے کو رقم کیساتھ اسکولوں بھیجنا لازمی ہے ۔یہ تعلیم نہیں یہ لوٹ ہے ،جس پر حکومت کو پالیسی بنانی ہوگی ۔غیر نصابی سرگرمیاں ناگزیر لیکن اگر یہ والدین پر بوجھ بن جائیںتو ضروری نہیں ۔