جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
17.5 C
Srinagar

وی شانتارام نے بامعنی فلمیں بنا کر سنیما شائقین کے دلوں میں اپنی خاص شناخت بنائی

ممبئی: فادر آف سنیما وی شانتارام کو ایک ایسے فلمساز کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے سماجی اور خاندانی پس منظر پر بامعنی فلمیں بنا کر تقریباً چھ دہائیوں تک سنیما شائقین کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔
وی شانتارام (راجارام وانکودرے شانتارام) 18 نومبر 1901 کو کولہا پور، مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ خراب مالی حالت کی وجہ سے انہیں اپنی پڑھائی درمیان میں ہی چھوڑنی پڑی، وہ بچپن سے ہی فلموں کی طرف مائل تھے اور فلمساز بننا چاہتے تھے۔ اپنے کیریئر کے ابتدائی مرحلے میں، انہوں نے گندھرو ڈرامہ گروپ میں پردہ اٹھانے والے کے طور پر بھی کام کیا۔ سال 1920 میں، انہوں نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں شمولیت اختیار کی اور ان سے فلم پروڈکشن کی باریکیوں کو سیکھنا شروع کیا۔ وی شانتارام نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1921 میں ریلیز ہونے والی خاموش فلم ’سوریکھ ہرن‘ سے کیا۔ اس فلم میں انہیں بطور اداکار کام کرنے کا موقع ملا۔
اسی دوران شانتارام نے جی کی ملاقات بھی جی داملے ، ایکس کلکرنی، ایس فتح لال اور کے آر دھائیبر سے ہوئی، جن کی مدد سے انہوں نے 1929 میں پربھات کمپنی فلمز قائم کی۔ پربھات کمپنی کے بینر تلے شانتا رام کو گوپال کرشنا، خونی خنجر، رانی صاحبہ اور ادےکال جیسی فلموں کی ہدایت کاری کا موقع ملا۔ سال 1932 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ایودھئچے راجا‘ ان کے سینی کیریئر کی پہلی بولتی فلم تھی۔ شانتارام 1933 میں ریلیز ہونے والی فلم ’سیرندھی‘ کو رنگین بنانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے جرمنی کا دورہ کیا اور فلم کو وہاں کی اگفا لیبارٹری میں پروسیسنگ کے لیے بھیجا لیکن تکنیکی وجوہات کی بنا پر فلم مکمل طور پر رنگین نہ ہو سکی۔
وی شانتارام نے کچھ دن جرمنی میں رہ کر فلم بنانے کی تکنیک بھی سیکھی۔ سال 1937 میں ریلیز ہونے والی فلم ’سنت تکارام‘ کا شمار شانتارام کی ہدایت کاری میں بننے والی اہم فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ فلم باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہوئی اور مشہور وینس فلم فیسٹیول میں اعزاز پانے والی پہلی ہندوستانی فلم بھی بنی۔ سال 1936 میں ہی شانتارام کے کیریئر کی ایک اور سپرہٹ فلم ’امر جیوتی‘ ریلیز ہوئی۔ یہ فلم ان کی ان چند فلموں میں سے ایک ہے جن میں ایکشن اور اسٹنٹ کا استعمال کیا گیا تھا، اس فلم کے ذریعے شانتارام نے سلور اسکرین پر خواتین کی طاقت کو متعارف کرایا تھا۔ سال 1942 میں، انہوں نے پربھات کمپنی کو الوداع کہہ دیا اور ممبئی میں راج کمل فلمز اور اسٹوڈیو قائم کیا۔ اس کے بینر تلے انہوں نے سال 1943 میں فلم ’شکنتلا‘ پروڈیوس کی۔ فلم نے ایک ہی سنیما گھر میں لگاتار 104 ہفتے چل کر ٹکٹ ونڈو پر کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
سال 1946 میں ریلیز ہوئی فلم ’ڈاکٹرکوٹنیس کی امر کہانی‘ کا شمار وی شاتارام کی ان اہم فلموں میں ہوتا ہے جس میں انہوں نے خود مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ فلم کی کہانی ڈاکٹر دوارکاناتھ کوٹنیس کی زندگی سے جڑے ایک سچے واقعے پر مبنی ہے، جس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈاکٹر کوٹنیس جاپانی حکومت کی طرف سے قید کیے گئے قیدیوں کے علاج کے لیے چین جاتے ہیں۔ تاہم، بعد میں ان کا انتقال وہیں ہوجاتا ہے۔
سال 1955 میں ریلیز ہونے والی فلم ’جھنک جھنک پائل باجے‘ پہلی رنگین فلم تھی جس کی ہدایت کاری وی شانتارام نے کی تھی۔ اس رقص پر مبنی فلم میں گوپی کرشنا اور سندھیا مرکزی کردار میں تھیں۔ فلم میں ان کی بہترین ہدایت کاری کے لیے انہیں پہلی بار بہترین ہدایت کار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سال 1958 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دو آنکھیں بارہ ہاتھ‘ وی شانتارام کی سب سے بڑی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دوآنکھیں بارہ ہاتھ کو اس سال کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسے بہترین فلم کے قومی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس فلم کو برلن فلم فیسٹیول میں سلور بیئر ایوارڈ اور سیموئل گولڈن ایوارڈ میں بہترین غیر ملکی فلم کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
سال 1959 میں ریلیز ہونے والی فلم ’نورنگ‘ وی شانتارام کے کریئر کی قابل ذکر فلموں میں شامل ہے۔ فلم میں ہولی کا گانا ’ارے جا رے ہٹ نٹکھٹ‘ فلمایا گیا تھا۔ آج بھی سنیما کے شائقین اس خوبصورت گیت کو بھول نہیں پائے ہیں ۔ اس گانے کو بھارت ویاس نے کمپوز کیا گیا ہے، جس کی موسیقی سی رام چندر نے دی ہے اور آشا بھوسلے کی سریلی آواز تھی۔ گانے سے جڑی ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ گانے کے دوران اداکارہ سندھیا کو ایک لڑکے اور لڑکی کے بھیس میں ایک ساتھ دکھایا گیا تھا۔ سال 1964 میں انہوں نے اپنی بیٹی راج شری کو فلم انڈسٹری میں متعارف کرانے کے لیے ’گیت گیا پتھرو ں نے‘ کا پروڈکشن کیا۔ اداکار جیتندر نے بھی اس فلم سے اپنے کریئر کا آغاز کیا، اپنی پہلی ہی فلم میں جیتندر کے کرشمے نے ناظرین کو متاثر کیا اور یہ فلم ٹکٹ کھڑکی پر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ ستر کی دہائی میں انہوں نے فلموں میں اپنا کام کافی حد تک کم کر دیا۔ سال 1986 میں ریلیز ہونے والی فلم ’جھانجھر‘ ان کی ہدایت کردہ آخری فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کو ٹکٹ کھڑکی پر بری طرح سے مسترد کر دیا گیا جس سے شانتارام کو گہرا صدمہ پہنچا اور انہوں نے فلم انڈسٹری سے کنارہ کرلیا۔
وی شانتارام کو اپنے کیریئر میں کافی عزت ملی۔ سال 1985 میں فلم پروڈکشن میں ان کی نمایاں خدمات کے پیش نظر انہیں فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں سال 1992 میں پدم وبھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے اپنے چھ دہائیوں کے طویل فلمی کیریئر میں تقریباً 50 فلموں کی ہدایت کاری کی۔ ان کے کیرئیر کی چند قابل ذکر فلمیں چندر سینا، مایا مچندرا، امرت منتھن، دھرماتما، دنیا نہ مانے، پڑوسی، اپنا دیش، دہیز، پرچھائیاں، تین بتی چار راستہ، سحرا، بوند جو بن گئے موتی، پنجرہ وغیرہ ہیں۔ فلمیں ناظرین میں ایک خاص شناخت بنانے والے عظیم فلمساز وی شانتارام 30 اکتوبر 1990 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img