اہل علم نے زمانہ قدیم سے ہی وقت کو تین زمانوں (ماضی ،حال اور مستقبل ) میں منقسم کیا ہے ۔اس کا اس طرح ہونا بھی اس کی کافی دلیل ہے کہ ”دنیا ختم ہوجائے گی۔“علاوہ ازیں ماضی، حال اور مستقبل کی اکائی میں زیادہ اہمیت حال اور مستقبل کو دی جاتی ہے اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے حال اور مستقبل کی اہمیت میں مزید اضافہ ہورہا ہے، یہاں تک کہ ماضی کی طرف دیکھنے کے عمل کو نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے اچھا نہیں سمجھا جاتا اور جو لوگ ماضی کی طرف دیکھتے ہیں، انہیں ماضی پرست، ماضی کا مردہ، قدامت پرست اور نہ جانے کن کن ناموں اور القابات سے یاد کیا جاتا ہے اور نوازا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں۔ لوگ ماضی کو دیکھتے ہیں لیکن اس عمل میں ایک سطحی سی رومانویت ہوتی ہے یا پھر اس بات پر اصرار کہ ہماری جڑیں بھی ہیں۔ لیکن ان جڑوں سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ اس سوال پر کم ہی غور کیا جاتا ہے۔
جدیدیت کے زیر اثر کہنے والوں نے کہا ہے کہ جو گزر گیا وہ ہمارے لئے بے سود ہے، البتہ جو ہورہا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ ہمارے لئے اہم ہے، اس لئے ہمیں فکر کرنی چاہئے تو اس کی اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے تو اس کے لئے۔ حال اور مستقبل کی اہمیت پر اس اصرار کی اپنی معنویت ہے۔ انسان اپنے حال اور اپنے مستقبل سے بے نیاز نہیں ہوسکتا لیکن جہاں تک حال اور مستقبل کو سمجھنے کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے بعض حقائق ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ان حقائق میں سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ وقت اور تجربے کے تناظر میں حقیقی وجود صرف ماضی کا ہے۔ حال اور مستقبل اس حقیقی وجود کے مقابلے پر محض ایک قیاس کی حیثیت رکھتے ہیں اور کبھی کبھی تو یہ قیاس بھی تحلیل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، وہ لمحہ جو گزر رہا ہے ہمارا حال ہے اور چونکہ ابھی وہ گزر رہا ہے، اس لئے اس کو متعین نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسے سمجھا جاسکتا ہے، البتہ جب یہ لمحہ گزر کر ہمارا ماضی بن جائے گا تو اس کو متعین کیا جاسکے گا۔ پھر س کا تجزیہ اور تحلیل ممکن ہوسکے گی، پھر اس سے کوئی معنی برآمد کئے جاسکیں گے۔ وہ لمحے جو ابھی آئے نہیں ہیں ہمارا مستقبل ہیں، لیکن یہ لمحے نامعلوم ہیں اور جو لمحے نامعلوم ہوں، ان کے خدوخال مرتب نہیں ہوسکتے، البتہ جب یہ لمحے حال سے گزر کر ماضی بن جائیں گے تو پھر ان کے خدوحال ازخود عیاں ہوجائیں گے اور ہم انہیں دیکھ کر ان سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو حال اور مستقبل کا کوئی وجود ہی نہیں۔ جو کچھ ہے صرف ماضی ہے۔الغرض یہ کہ ہر معاشرہ نشیب و فراز سے گزار تا ہے ۔تاہم وقت کی ضرورت ہے کہ جتنی توجہ حال اور مستقبل پر ہو ،اتنی ہی فکر ماضی کے سرمایہ کو محفوظ کرنے کے لئے ہونی چاہیے ۔کشمیر کا ماضی اتنا تابناک اور روشن ہے ،اس سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنا لازمی ہے اور وقت کی اہم ضرورت بھی ہے ۔جو قومیں اپنے ماضی کو بھلا کر آگے بڑھتی ہیں ،اُن کاحال اور مستقبل کی کشتی ہچکولے کھانے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔غور کریں ،ماضی کو یاد رکھیں اور اپنے حال اور مستقبل کو سنوار نے کی مسلسل کوششیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کریں ۔کامیابی اسی عمل میں پوشیدہ ہے ۔ اس لئے دانشور حضرات کہتے ہیں کہ ماضی تو ایک یاد ہے جبکہ مستقبل ایک خیال ہے ۔
