جمعہ, جون ۶, ۲۰۲۵
21.4 C
Srinagar

ہکلاہٹ ایک مرض ،مذاق نہ اڑائیں

دنیابھر میں زبان میں لکنت یعنی ہکلاہٹ سے متعلق آگاہی کا عالمی دن22 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد عوام کو زبان کی لکنت یا ہکلاہٹ کے شکار افراد کی پریشانی کا احساس دلانا اور اس کے بارے میں شعور اجاگرکرنا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت تقریباً 7 کروڑ افراد لکنت یا ہکلاہٹ کا شکار ہیں،یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے اور بعض نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے، بعض افراد کسی پریشان کن صورتحال میں ہکلانے لگتے ہیں تاہم یہ صورت حال جزوی ہو سکتی ہے۔لکنت یا ہکلاہٹ کے عالمی دن کے موقع پر مختلف نجی و طبی اداروں کے زیر اہتمام مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جا تا ہے کہ یہ مرض نہیں ہے لیکن فرض کریں یہ مرض ہے تو بھی اس مریض کودوسروں کی جانب سے مذاق اڑائے جانے کی وجہ سے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لکنت کا شکار اکثر افراد خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں جو ا±ن کیلئے زندگی میں کئی مسائل کا باعث بنتا ہے۔زبان میں لکنت یا ہکلاہٹ ایک ایسا مرض ہے جس کی عموماً کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔ ہکلاہٹ اتنا عام مرض نہیں لیکن اس کے شکار افراد گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار د±ہراتے ہیں، ایک حرف پر اڑ جاتے ہیں۔ وہ حرف ادا نہیں ہو پاتا تو زور لگاتے ہیں۔ لکنت کا مریض کسی لفظ میں موجود ایک حرف ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔
ایشین میل کے ملٹی میڈیا پروگرام ”یوتھ ایچیورس“ میں گزشتہ ہفتے ہم نے ماہین شبیر سے روبرو کرایا تھا ۔ماہین شبیر کو بھی لکنت کی بیماری کا سامنا ہے ۔انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے ۔تاہم انہوں نے کامیاب زندگی گزار نے کے لئے نہ صرف کشمیر یونیورسٹی سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی ۔بلکہ تمام چیلنجز سے نمٹتے ہوئے ہنر مندی میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جو ہر دکھا ئے ۔ماہین شبیر نے فن پارہ کو ایک نئی شکل صورت دی اور یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی اسپیشل ہے ۔ماہرین کے مطابق لکنت کی تین اقسام ہیں: ڈویلپمنٹل، نیوروجینک اور سائیکو جینک۔ پہلی قسم ہکلاہٹ کی سب سے عام قسم ہے جو زیادہ تر بچوں میں اس وقت ہوتی ہے جب وہ بولنا سیکھتے ہیں۔ اس کا علاج اس وقت بچوں کی مدد کر کے کیا جا سکتا ہے بجائے اس کے کہ بچے کا مذاق اڑایا جائے۔ دوسری قسم نیورو جینک ہے جس کا تعلق بولنے میں مدد دینے والے خلیات کی خرابی سے ہے۔ اس کا علاج ماہر یا ڈاکٹر کی زیر نگرانی ہونا چاہیے۔سائیکو جینک مختلف دماغی یا نفسیاتی امراض اور پیچیدگیوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے یعنی یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے اور نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہکلاہٹ کا تعلق بول چال سے منسلک خلیوں کی کمزوری سے ہوسکتا ہے۔ نوجوانوں یا بڑی عمر کے افراد میں عموماً اس مسئلہ کی وجہ فالج کا دورہ یا دماغ کی چوٹ ہوتا ہے۔ جس وجہ سے وہ اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس بیماری کا علاج ممکن ہے،ویسے آج طبی سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کہ کینسر جیسے مرض کا بھی علاج ممکن ہوگیا ہے ۔تاہم سب سے پہلے تو مریض کے اندر خود اعتمادی کا پیدا ہونا لازم ہے، اس کیلئے اسے اس کی آگاہی فراہم کی جائے کہ دنیا میں لوگ کس کس طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں۔ اس کے بعد مریض کے اندر یہ اعتماد و یقین پیدا کیا جائے کہ یہ مرض قابل علاج ہے۔ جہکلاہٹ پر قابو پانے کے لیے مختلف اسپیچ تھراپی کی جاتی ہیں جن میں سانسوں کی آمد و رفت اور گفتگو کو مختلف انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ جب بھی آپ اپنے آس پاس کسی شخص کو ہکلاہٹ کا شکار دیکھیں ،تو اس کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔اکثر یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ ہم ایسے افراد کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ویسے بھی کسی کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے ۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے ہر انسان کو بنا یا ہوتا ہے۔اگر وہ کسی کو جسمانی معذوری سے امتحان لیتا ہے ۔تاہم وہ اپن کے اندر وہ خوبیاں بھی پیوست کرتا ہے ،جو خوبیاں ایک نار مل آدمی میں نہیں ہوتیں ۔ہمیں ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کے لئے آگے آنا چاہیے جبکہ حکومت کو ایسے افراد کے لئے صرف عالمی دن منانے سے اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسے افراد کی مدد کے لئے خصوصی مرا کز قائم کرنے چاہیے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img