جموں وکشمیر میں تقریباً چھ سال بعد عوامی منتخب حکومت معرض ِ وجود میں آئی ۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ نے بدھ کے روز جموں وکشمیر یونین ٹریٹری کے پہلے وزیر اعلیٰ کے طور پرحلف لیا۔حلف برادری کی یہ تقریب یہاں جھیل ڈل کے کناروں پر واقع شیر کشمیر کنوکیشن سینٹر(ایس کے آئی سی سی) میں منعقد ہوئی، جہاں جموں وکشمیرکے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے عمر عبداللہ اور ان کے منتخب اراکین کو اپنے عہدوں کوحلف دلایا۔نیشنل کانفرنس کے سینئرلیڈر سریندر چودھری نے نائب وزیر اعلیٰ کے طور پرحلف اٹھایا جبکہ پارٹی کے لیڈروں جاوید ڈار،سکینہ یتو، جاوید رانا اور ستیش شرما چمب نے کابینہ وزیروں کے طور پرحلف لئے۔حلف براداری کی اس تقریب میں جن نمایاں لیڈروں نے شرکت کی ان میں سینئر کانگریس لیڈر اور لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر راہل گاندھی، کانگریس جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی، سماج وادھی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو، سی پی آئی (ایم) لیڈر پرکاش کرت اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹرفاروق عبداللہ شامل تھے اور اس موقع پر نیشنل کانفرنس کے تمام لیڈران موجود تھے۔عمر عبداللہ جموں وکشمیر میں یونین ٹریٹری کے پہلے وزیر اعلیٰ ہوں گے جبکہ اس عہدے پر دوسری بار فائز ہوں گے۔
عمرکی پہلی میعاد 2009 سے 2014 تک کانگریس کے ساتھ مخلوط حکومت کے تحت جموں و کشمیر کی ریاست کی مکمل حیثیت کے دوران تھی۔ جموں و کشمیر کی90 اسمبلی سیٹوں میں این سی اور کانگریس نے 48، بی جے پی نے 29 اور پی ڈی پی نے تین پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ اے اے پی کے معراج ملک نے اروند کیجریوال کی قیادت والی پارٹی کو جموں و کشمیر میں پہلی بار انتخابی جیت دلائی ہے۔مرکز میںاپوزیشن لیڈران نے جموں وکشمیر کی نئی سرکار کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرکے ایک پیغام دیا کہ اگلے پانچ سال تک ہم یہاں ہیں اور کہیں نہیں جارہے ہیں۔جموں وکشمیر کے عوام نے حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران منقسم مینڈیٹ دیا ۔تاہم ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں یہ مینڈیٹ اتنا منقسم نہیں تھا ،جتنا ماضی میں دیکھنے کو ملا ۔ماضی میں منقسم عوامی مینڈیٹ کے سبب حکومت سازی کی تشکیل میں کافی مشکلات درپیش آئیں ۔اس وجہ سے کشمیر سے دہلی تک سیاسی گلیاروں میں ہلچل دیکھنے کو ملی ۔تاہم آج کی تاریخ میں نیشنل کانفرنس نے آسانی سے حکومت تشکیل دی ۔گوکہ نیشنل کانفرنس کو بعض آزاد امیدواروں کی حمایت لینے پڑی ۔تاہم کانگریس نے نیشنل کا نفرنس کو ایک حکومتی اتحادی کے بطور اپنا تعاﺅن دیا ۔کیوں کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے مشترکہ طور پر اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا ۔
جموں وکشمیر کی نئی حکومت (جے کے یوٹی ) کی سرکار کہلائی جائے گی ۔ایسے میں انتظامی امور کیساتھ موجودہ حکومت کو عوام کے لئے راحتی پیکیجز دینا بڑے چیلنجز رہیں گے ۔ایک طرف عوام کیساتھ کئے گئے وعدوں کا وفا کرنا ہوگا ،دوسری جانب عوامی احساسات اور جذبات کی ترجمانی بھی اس حکومت کو کرنی ہوگی ۔ایسے میں ریاستی درجے کی بحالی سے لیکر راحتی پیکیجز کے ساتھ علاقائی تواز ن کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ سرکار کو انتہائی دانش مندی کیساتھ آگے بڑ ھنا ہو گا ۔گوگہ نومنتخب وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ واضح طور پر پہلے ہی یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ مرکز کیساتھ بہتر اور خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے ،وہیں مرکز کا رول کیا رہے گا ؟یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہو گا ۔تاہم فوری طور پر عوامی منتخب حکومت کو انتخابی منشور میں عوام سے کئے گئے ،وعدوں کو پوراکرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر سنجیدہ اقدا مات کر نے چاہیے ۔بجلی فیس میں کمی کیساتھ ساتھ موسم سرما کے دوران بجلی اور پانی کی سپلائی کو بغیر خلل سپلائی فراہم کرنے کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔اقتصادی حالات کو بہتر کرنے اور نوجوانوں کے لئے روزگار نئے نئے وسال پیدا کرنے کے لئے مختصر اور طویل مدتی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔منقسم مینڈیٹ کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لئے علاقائی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے فوری نوعیت کے اقدامات کرنے ہوں گے ۔
