ممبئی: بالی ووڈ مداحوں کے ذہن میں ٹام آلٹر کی پہنچان ایسے اداکار کے طور پر کی جاتی ہے جو فلموں میں انگریز کا کردار ادا کرتا تھا۔
ٹام آلٹر کو بھلے ہی کوئی ان کے نام سے نہ جانتا ہوں ، لیکن جب بھی انگریز ایکٹرکا نام لیا جاتا ہے سبھی کے ذہن میں ایک ہی چہرہ ابھرتا ہے وہ ہے ٹام آلٹر ۔
ان کی پیدائیش 22 جون 1950 کو اتراکھنڈ کے مسوری میں ہوئی۔
ٹام الٹر ایک امریکی عیسائی مشنری فیملی سے تعلق رکھتے تھے،ان کے دادا 1916میں امریکہ کے اوہیو سے ہندوستان آئے۔
ٹام 18 برس کی عمر میں امریکی یونیورسٹی میں تعلیم کی غرض سے وہاں چلے گئے لیکن ان کا دل نہیں لگا اور وہ درمیان میں ہی وہاں سے واپس لوٹ آئے۔
اس کے بعد انہوں نے کئی جگہ ملازمتیں کیں ۔
انہوں نے ہریانہ کے سینٹ تھامس اسکول میں ٹیچر کی بھی چھ مہینے تک نوکری کی۔
سپراسٹار راجیش کھنہ کی سال 1969 میں فلم ارادھنا نے ٹام آلٹر کو اتنا متاثر کیا کہ وہ اسی ہفتے انہوں نے اس فلم کو تین مرتبہ دیکھا۔
دوسالوں تک ان کے ذہن میں راجیش کھنہ اور شرمیلا ٹیگو چھائے رہے۔
اب بس وہ راجیش کھنہ بننا چاہتے تھے۔
بطور ہیرو بننے کا خواب لے کر ٹام آلٹر نے پنے میں ہندستانی فلم اور ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔
ٹام نے 1974 میں ایف ٹی آئی آئی سے گریجویشن کے دوران گولڈ میڈل حاصل کیا۔
اسی دوران انہوں نے نصیر الدین شاہ اور بنجامن گیلانی کے ساتھ ایک کمپنی موٹلی قائم کیا اور ڈرامے کی دنیا میں قدم رکھا۔
ڈرامے میں انہوں نے مرزا غالب پر اسی نام کے پلے اور مولانا عبدالکلام آزاد پر مبنی پلے مولانا میں شاندار کردارا دا کئے جس کے لئے انہیں ہمیشہ یا د رکھا جائے گا۔
اردوکے ڈائیلاگ متاثرکن اور لب ولہجہ کے ساتھ اداکرتے تھے اور ان کا تلفظ بھی بہترین تھا ،ادب وشاعری سے بھی دلچسپی رکھتے رہے۔