جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے دوسرے اہم مرحلے میں اگر چہ پارلیمانی انتخابات کی نسبت پولنگ کی شرح کم رہی ۔ تاہم زمینداری اور باغبانی کے اہم سیزن میں 57.03فیصد ووٹنگ ہونا اپنے آپ میں ایک ریکارڈ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ جن اسمبلی حلقوں میں اکثر و بیشتر بائیکاٹ ہوتا تھا، اُن حلقوں میں بھی آج اچھی خاصی پولنگ ہوئی ہے، جو واقعی ایک مثبت قدم مانا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات کہنا بھی بے حد لازمی ہے کہ پولنگ انتہائی احسن طریقے سے ہوئی اور کہیں سے بھی لڑائی جھگڑے یا تشددکی کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے، نہ ہی کسی پارٹی کے ورکروں ،عہدیداروں یا اُمید واروں نے دھاندلی کاکوئی الزام انتخابی کمیشن یا عملے پر عائدکیا ہے۔یہ پہلا موقع ہے، جب اس طرح نہایت ہی پُرامن طریقے سے پولنگ کا انتظام کیا گیا تھا اور ہر پولنگ ا سٹیشن پر سیکیورٹی کے اچھا خاصا انتظام کیا گیا تھا۔یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم مانی جاتی ہے کہ ان انتخابات کو دیکھنے کے لئے غیر ملکی سفارت کار بھی وادی کے دورے پر آئے تھے، جنہوں نے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور ووٹران کے ساتھ ساتھ پولنگ عملے اور انتظامی افسران کے ساتھ بات بھی کی۔جموں کشمیر میں دس سال بعد ہو رہے ان انتخابات کے نتا ئج کیا سامنے آئیں گے، یہ الگ سوال ہے لیکن تمام سیاسی جماعتوں سے وابستہ لیڈاران اور اُمید واران لوگوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر خوش نظر آرہے تھے ۔1987کے بعد اس طرح کے اسمبلی انتخابات پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملے جب بزرگوں ،خواتین اور نوجوان ووٹران کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے اور بغیر کسی خوف و ڈر کے لوگ اپنے ووٹ کا استعمال کر رہے تھے۔اس تمام صورت حال اور کامیابی کے لئے جہاں مرکزی سرکار مبارک بادی کیمستحق ہے ،وہیں جموں کشمیر ایل جی انتظامیہ اور وہ لوگ بھی مبارک بادی کے مستحق ہیں جنہوں نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران بلعموم اور گذشتہ دس برسوں سے بلخصوص حالات کو بہتر بنانے اور ملک کی ترقی کو عام لوگوں تک پہچانے میں اپنا بھر پور کردار نبھایا ہے۔
ان انتخابات میں ایک بات سامنے آگئی ہے کہ ہمارے ملک خاصکر جموں کشمیر میں45 فیصدلوگ ابھی بھی ووٹ کی اہمیت وافادیت اور قیمت سے ناآشنا ہیں ۔ انتخابات کے بعد وجود میںآنے والی نئی جموں کشمیر کی سرکار اور ملک کے انتخابی کمیشن کو اس حوالے سے گہرائی سے سوچنا چاہئے اور ایسا طریقہ کار اور لا ئحہ عمل مرتب کرنا چاہئے کہ لوگ ووٹ کی اہمیت ،افادیت اور قیمت سے پوری طرح باخبر ہو ںاور جب بھی کسی قسم کا انتخاب ہو، خواہ وہ پارلیمنٹ کا ہو یاا سمبلی کا یاپھر بلدیاتی اداروں کے لئے ہوں ،ہر ایک شہری اپنا ووٹ بغیر کسی طوالت اور پریشانی کے ووٹ ڈالیں۔یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کی مجبوری او راُن کے وقت کی قدر کرتے ہوئے آن لائین ووٹنگ پر بھی غور کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ یورپی ممالک میں ہوتا ہے۔ اگر یہ سہولیت ملک میں متعارف ہوگی تو لوگ گھر بیٹھے بیٹھے اپنے ووٹ کا استعمال اپنے موبائل فون کے ذریعے سیکنڈوں میں کرسکتے ہیں ۔ اس طرح نہ ہی ووٹران کو پولنگ بوتھوں کے باہر قطاروں میں کھڑا رہنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی موسمی تبدلی ووٹنگ کے عمل پر اثر انداز ہوگی ۔نہ ہی انتظامیہ کو پولنگ عملے ،سیکیورٹی اور پولنگ بوتھوں پر ہورہے کروڑو ں رو پے خرچ کرنے کی ضرورت پڑے گی جو ملک کے خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔اس عمل سے ووٹنگ شرح بڑھنے کیساتھ ساتھ جمہوری عمل کو مزید فروغ ملے گا ۔





