دس سال بعد ہو رہے جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں آج 6اضلاع کے 26 اسمبلی حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ان حلقوں میں 239اُمیدوار اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔لگ بھگ چار دہائی قبل جموں کشمیر میں اس طرح کی انتخابی چل پہل دیکھنے کو ملی تھی، جب مسلم متحدہ محاذ کے بینر تلے درجنوں سیاسی اور دینی تنظیموں نے حصہ لیا تھا ،جس دوران نیشنل کانفرس سرکار پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کی اور اس طرح وادی میں ملی ٹنسی کی شروعات ہوئی، جس سے نہ صرف جموں کشمیر کے لوگوں کو مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ تشدد کی ایک ایسی لہر چلی جس نے ہزاروں لوگوں کی جانیں لیں اور اربوں روپئے مالیت کے جائیدادوں کو نقصان پہنچا۔لاکھوں کشمیری پنڈتوں کو اپنا آبائی وطن کو چھوڑنا پڑا اور سیاسی اتھل پتھل چار سو دیکھنے کو مل رہی تھی ۔کوئی مسئلہکشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے عین مطابق حل کرنے کی مانگ کرنے لگا اور کوئی جموں کشمیر کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کا نعرہ بُلند کرنے لگا۔نوجوان طبقہ تعلیم و تربیت چھوڑ کر ان کھوکھلے نعروں کے سمندر میں غوطہ زن ہونے میں ہی اپنی خیر و عافیت سمجھنے لگا،اس طرح تباہی اس قوم کی مقدر بن گئی۔
بہر حال گزشتہ 5برسوں کے دوران مرکزی سرکار نے ایک سخت گیرپالیسی اپنا تے ہوئے جموں کشمیر میں نہ صرف حالات بہتر بنانے کےلئے منصوبے عملائے بلکہ انہوں نے نئی پود کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ کھیل کود اور دیگر زندگی کے شعبوں میں نوجوان طبقے کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع فراہم کیا ۔آج جموں کشمیر کے بچے نہ صرف ملکی اور عالمی سطح پر مختلف شعبوں میں نمایاں کارکر دگی دکھا کر اپنے دوست احباب ،رشتہ داروں اور والدین کا سر فخر سے اونچا کر دیتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے وطن کا نام بھی روشن کیا۔آج جموں کشمیر کے بچے نہ صرف تعلیمی میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے ہیں بلکہ یہاں کے پڑھے لکھے نوجوان سیاسی میدان میں آکر وطن کے لوگوں کی خدمت کرنے میں بھی کافی زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں۔اس بات کا اندازہ یہاں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کشمیر میں ہو رہے اسمبلی انتخابات میں سب سے زیادہ آزاد اُمید وار انتخابی میدان میں اپنی سیاسی تقدیر آزمارہے ہیں۔یہاں یہ بات کہنا بے حد ضروری ہے کہ یہاں کی اکثر سیاسی جماعتوں کے لیڈران ان اُمید واروں کی یہ کہہ کر مخالفت کررہے ہیں کہ ان کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوگا ،جس کا فائدہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہوگا۔
دراصل یہاں کے روایتی سیاستدان کسی عام پڑھے لکھے نوجوان کو سیاست میں دیکھنا پسندنہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ان سیاستدانوں کو بھر پور عوامی خدمت کرنی پڑے گی اور اب اُن کی جاگیر داری اثر انداز ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان اب گھر گھر جا کر لوگوں سے ووٹ مانگنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔جہاں تک ملک کے جمہوری نظام کا تعلق ہے، اس میں کوئی بھی شہری کسی بھی انتخابی دنگل میں اُتر سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ اُس شہری کے اندر عوامی خدمت کرنے کا جذبہ موجود ہو ۔جس طرح کھیل کود اور تعلیم و تربیت کے میدان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران یہاں کے عام بچوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا ملکی اور عالمی سطح پر منوایا ہے ،اسی طرح یہاں کے پڑھے لکھے باصلاحیت نوجوان بھی سیاست کے میدان میں اپنا لوہا منواسکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ وہ ایمانداری سے لوگوں کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود اور امن و خوشحالی کے لئے کام کرنے کی نیت رکھتے ہو۔آج اور آخری مرحلے کی ووٹنگ میں لوگوں کو بغیر کسی سُستی اور طوالت کے گھروں سے باہر نکل کر اپنے ووٹ کا استعمال کھل کر کرنا چا ہیے تاکہ صحیح نما ئندے کامیاب ہو جا ئیں، جو عوام کی خدمت اور ترجمانی کر سکیں۔