سیاحتی مقامات کی دیر پا ترقی اور دستکاری شعبے کو فروغ دینے کے لئے ورلڈ بینک بطور ”نالیج پارٹنر“اپنی خدمات جموں وکشمیر انتظامیہ کے ساتھ کام کرے گا۔ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز ورلڈ بینک کے نمائندوں نے جموں کشمیر کے چیف سیکرٹری شری اٹل ڈلو کے ساتھ ایک خصوصی میٹنگ کے دوران کیا۔اس خصوصی میٹنگ کے دوران مختلف ترقیاتی منصوبوں سے متعلق تبادلہ خیال کیاگیا اور ورلڈ بینک کے عہدیداروں سے بینک کے مالی تعاون سے چلنے والے جہلم توی فلڈریکوری پروجیکٹ (جے ٹی ایف آر پی)مزید ایک سال کی توسیع کا مطالبہ بھی دورے پر آئی ورلڈبینک ٹیم کے سامنے رکھا گیا۔جہاں تک ورلڈ بینک کا تعلق ہے وہ دنیا بھر کے ممالک کو مختلف شعبوں اور ترقیاتی منصوبوں کی عمل آوری کے لئے امداد فراہم کر رہا ہے ۔
جموں کشمیر میں اس عالمی ادارے نے جھیل ڈل کی صفائی اور ولر جھیل کی بہتری کے لئے کافی مالی مدد کی تھی لیکن آج تک یہ دونوں جھیلیںنہ ہی تباہی سے بچ گئیں اور نہ ہی ان اہم آبی ذخیروں میں مکمل طور صفائی ممکن ہو پائی۔کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کے لئے عوام کا بہت بڑا رول ہوتا ہے ،جب تک عام لوگ صحیح ڈھنگ سے باشعور نہ بن سکےں، تب تک تعمیر و ترقی کا ہونا لامحال ہے۔جموں وکشمیر کے لوگ آج کے اس جدید اور تعلیم یافتہ دور میں بھی پانی کے ذخیروں کو صاف رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں آخر کیوں۔۔؟پُرانے ایام میں لوگ پانی کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک عظیم رحمت مانتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ پانی کو گندہ یا ضا ئع کرنا گناہ عظیم تصور کرتے تھے ۔وہ اپنے اپنے آبائی علاقوں میں ندی نالوں چشموں اور جھیلوں کی ہر طرح حفاظت کرتے تھے اور آبی زمین پر قبضہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔اس کے برعکس آج ہر علاقے میں پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں پھر بھی آبی پناہ گاہیں پُر کر کے ان پر مکانات ،دکانات،ہوٹل اور رہائشی مکانات تعمیر کرتے ہیں ۔جہلم کے کناروں کو خوبصورت بنانے کی بے حد کوشش جاری ہے ،ہمارے خوبصورت جھیل روز بروز سکڑتے جارہے ہیں۔گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جھیل ڈل کا ایک تہائی حصہ لوگوں نے ہڑپ کیا ہے ۔اس ڈل میں رہائش پذیر لوگوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کرنے کے لئے منصوبے بنائے گئے، لیکن عملی طور وہ سب ناکام ہوئے۔ولر کے بیچ میں سے سڑک کی تعمیر کی گئی، اس طرح ایشیاءکی اس سب سے بڑی جھیل کی شکل و صورت بگاڑ دی گئی۔جہاں تک شہر سرینگر میں موجو د آنچار جھیل ،گل سر اور براری نمبل کا تعلق ہے ،یہ آبی ذخائر بھی دھیرے دھیرے ختم ہورہے ہیں ۔انتظامیہ نے سارا کوڑا کرکٹ آنچار جھیل کے ایک حصے میں جمع کیا ہے ، جو ایک پہاڑ کی صورت میں نظر آرہا ہے ۔
یہاں اس فیصلے کے خلاف لوگوں نے زبر دست تحریک چلائی تھی لیکن وقت کے حکمرانوں نے عوام کی ایک نہ سُنی کیونکہ حکومت میں شامل ،کئی لیڈران اور سیاستدانوں نے یہاں زمین خریدی تھی، وہ چاہتے تھے اُن کی خریدی ہوئی زمین جو پانی ہی پانی تھی ،آباد ہو سکے اور وقت آنے پر یہاں رہا ئشی کالنیاں تعمیر کی گئیں۔اثرو رسوخ رکھنے والے افراد ،لینڈ مافیا اور چند سیاستدانوں نے اپنےذاتی مفادات کیخاطر یہاں کے صدیوں پُرانے آبی ذخیروں کو تباہ و بُرباد کر دیا گیا۔یہی حال جموں کا بھی ہے جہاں توی کے ساتھ ساتھ جنگلاتی اراضی کوان لوگوں نے نہیں بخشا۔اب جبکہ ایک بار پھر ورلڈ بینک کے عہدیدار یہاں کے مختلف پروجیکٹوں کی عمل آوری کے لئے مالی اور تیکنیکی مدد فراہم کر رہی ہے ،ہمیں اُمید ہے کہ حکومت بنے کے بعد بھی مرکزی حکومت اور ایل جی ان پروجیکٹوں پر نظر گذررکھےںگے تاکہ عالمی بینک سے ملنے والا پیسہ ضا ئع نہ ہو جائے جیسے کہ گذشتہ 6 دہائیوں سے ہوتا آیا ہے۔