جموںوکشمیر کی سیاست میں اُس وقت ایک اور ہلچلدیکھنے کو ملی جب گزشتہ روز عوامی اتحاد پارٹی کے بانی اور ممبر پارلیمنٹ انجینئر رشید کی رہائی5برس کے بعد تہاڑجیل سے ہوئی اور انہوں نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں جموں کشمیر کے عوام کے حقوق کے لئے آخری دم تک لڑتا رہوں گا اور آر پار رائے شماری کا مطالبہ دہرایا۔انہوں نے جموں کشمیر کی اُن سیاسی جماعتوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ انہیں اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھناچا ہیے، جنہوں نے انجینئر رشید کی رہائی کو لیکر سوالات اٹھائے ہیں اور کہا وہ حکمران جماعت کا ایجنٹ ہیں، جنہیں انتخابات کے موقع پر یہ سوچ کر رہا کیاگیا کہ اُن کی پارٹی وادی کے ووٹوں کی تقسم کرے گی اور اس طرح بی جے پی جموں وکشمیر میں اپنی حکومت قائم کر سکے ،جو اُن کا خواب ہے۔
بہر حال انجینئر رشید کی پارٹی ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کیا گل کھلائے گا ؟یہ 8اکتوبر کو ہی پتہ چلے گا، لیکن ایک بات طے ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی مقامی پارٹیوں کے اندر زبردست کھلبلی مچ گئیہے اور ان کے اندر بے چینی پیدا ہو چکی ہے۔انجینئر رشید نے پارلیمانی انتخابات میں نمایا ں کارکردگی کا مظاہرہ کر کے نہ صرف نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبدللہ کو بُری طرے شکست دی بلکہ شمالی کشمیر میں سب سے پرانی جماعت پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کو بھی مات دی تھی ، جو اُن کا اپنا آبائی علاقہ مانا جاتا ہے۔بہر حال جموںو کشمیر میں ہو رہے اسمبلی انتخابات اب کی بار انتہائی دلچسپ ہوتے جارہے ہیں اور چند لیڈران کو بولنے کی کھلی آزادی دی جاتی ہے جبکہ کچھ لیڈاران اور اُمیدواروں کو غلط نعروں پر سمن جاری کئے جاتے ہیں اور ایف آئی آر دائرکی جاتی ہے۔جہاں تک انجینئر رشید کی رہائی کے بعد بیان کا تعلق ہے وہ انتہائی سخت اور کشمیری عوام خاصکر نوجوان طبقے کے جذبات کو اُبھارنے کے لئے کافی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران حریت والوں نے یہی کام کیااور انہوں نے ہمیشہ نوجوانوں کو آزادی کے خواب دکھائے جن کی وجہ سے نہ صرف لاکھوں لوگ درغور ہوگئے بلکہ ہزاروں لوگ جیلوں کی زینت بن چکے ہیں اور اربوں روپئے کی مالیت کا نقصان بھی ہو چکاہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ ایک سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن کیا یہ تبدیلی انجینئر رشید لا سکتے ہیں ؟کیا وہ واقعی وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو این سی ی،پی ڈی پی اور حریت کانفرنس کے لیڈران گزشتہ تین دہائیوں کے دوران حاصل نہیں کر پائے۔بہر حال ایک بات طے ہے کہ اب کی بار انجینئر رشید اُسی طرح شیر بن کر سیاسی میدان میں گھومنے لگے ہیں، جس طرح مرحوم شیخ محمد عبدللہ اور مفتی محمد سید گھوم رہے تھے اور جموں کشمیر کے عوام کو کو یہاں بدلاﺅ لانے کی باتیں کر رہے تھے ۔بل آخر وہ اپنے اپنے منصوبوں میں ناکام ہوگئے ۔حکومت کے سنگھاسن پر براجماں ہونے کے باوجود جموں کشمیر کے معاملے پر کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہ کر پائے۔دیکھانا یہ ہوگا کیا انجینئر رشید بھی انتخابات کے بعد ایسی ڈگر پر جا ئیں گے یا پھر جیل کی چار دیواری میں زندگی کے باقی بچے ایام گذاریں گے ۔ایک بات سو فیصد صیحح ہے کہ جموں کشمیر کے عوام کو آج تک کوئی سیاسی لیڈر نہیں ملا جو سچ بول کر یہاں کے لوگوں کو حقیقت تسلیم کر واسکتا تھا کہ اس حصے میں آباد لوگوں کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ ہو چکا ہے۔